Maktaba Wahhabi

544 - 545
طریقے پر اپنا قانونی حق استعمال کر سکتا ہے اور اس کا یہ قانونی حق اس صورت کوعقدمعاوضہ میں داخل نہیں کرتا۔تکافل کے وقف ماڈل میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے جو اُسی مجلس میں اٹھایا گیا وہ یہ کہ پالیسی ہولڈر خواہ اپنے نقصان کی تلافی وقف کے قوانین کی بنیاد پر کرائے تاہم پریمیم دیتے وقت اس کی یہ نیت بہرحال ہوتی ہے کہ مجھے اس کے بدلے کچھ نہ کچھ ملے بلکہ اگر میرا نقصان زیادہ ہو تو زیادہ بھی ملے،گویا یہاں دینا اس غرض سے ہے کہ واپس ملے گا اور وہ بھی زیادہ ملے گا تو اس غرض سے کسی کو رقم دینا قرآن کریم کی اس وعید میں داخل نہ ہو گا جس میں فرمایا گیا کہ: ﴿وَلا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ[1] ”کسی پر اس لیے احسان نہ کرو کہ اس کے بدلے زیادہ ملے۔“ نیوتہ (نیندرہ)کو بھی اسی لیے ناجائز کہا گیا ہے کہ اس میں دینے والے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مجھے اس کے بدلے میں زیادہ ملے۔ لیکن حاضرین کی اکثریت نے اس اشکال کا جواب یہ دیا کہ اس بات پر تمام فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ واقف کوئی چیز وقف کرتے وقت اس سے خود نفع اٹھانے کی نیت کرے بلکہ وقف میں باقاعدہ اپنے انتقاع کی شرط بھی لگائے تو شرعاً اس کی بھی اجازت ہے۔(بحوالہ بخاری) اس سے معلوم ہوا کہ وقف کے احکام انفرادی عطیات اور ہدایا(Gifts) سے مختلف ہیں اور اس کی وجہ واضح ہے کہ وقف کا مقصد ان لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے جن کے لیے اسےوقف کیا گیا،لہٰذا اگر واقف وقف سے فائدہ حاصل کرتا ہے تو وہ وقف کے مقاصد میں داخل ہونے کی بناء پر فائدہ اُٹھاتا ہے، اسی طرح وقف کو چندہ دینے والا اگر وقف سے فائدہ اٹھائے تو وقف کے قواعد وضوابط کے مطابق اٹھائے گااوراگر وقف کے قواعد و ضوابط کے مطابق وہ مستحق قرارنہ پائے تو وہ فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔
Flag Counter