Maktaba Wahhabi

53 - 545
5۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی منقول ہے، ایک شخص نے اس سے مسئلہ دریافت کیا کہ میں نے ایک شخص سے پانچ سود درہم قرض لیا ہے شرط یہ ہے کہ میں اسے استعمال کے لیے اپنا گھوڑا عاریتاً دونگا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (مَا أَصَابَ مِنْه فهو رِبَا)”وہ شخص اس گھوڑے سے جو فائدہ اٹھائے گا وہ ربا ہے۔[1] الغرض سود کی یہ تعریف ہر لحاظ سے واضح ہے۔عربی لغت، جاہلی رسم و رواج اور احادیث و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی دور میں بھی سود کی تعریف کے بارے میں کوئی شبہ نہیں رہا۔ہمیشہ سے ربا کا مفہوم قرض پر کسی بھی قسم کا مالی یا غیر مالی فائدہ سود شمار ہوتا رہا ہے۔ یہی اس کی قانونی اور فقہی تعریف ہے۔حتیٰ کہ حافظ ابن عبدالبررحمۃ اللہ علیہ (متوفی 463ھ)نے اس تعریف پر اجماع امت نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں: "وَقَدْأجمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ نَقْلاً عَنْ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسلَّمَ أَنَّ اِشْتِرَاطَ الزِيَادَةِ فِيْ السَّلْفِ رِبَا وَلَوْ كَانَ قَبْضَةُ مِنْ عَلَفٍ أوْ حَبَّةٍ."[2] ”تمام اہل اسلام نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ قرض کے اصل زر پر اضافہ کی شرط لگانا سود ہے خواہ وہ ایک مٹھی چارہ یا ایک دانہ ہی کیوں نہ ہو۔“ علامہ ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ہدایۃ المجتہد میں اس تعریف پر اجماع نقل کیا ہے۔[3] ربا النسیئہ رباالفضل ، سود مفرد اور سود مرکب سب اس میں داخل ہیں، اس میں کبھی کسی کو کوئی شبہ نہ رہا ماسوااس شبہ کے جو کفار مکہ کو اور عصر حاضر کے اس نظام کے خالق لوگوں کو ہے۔
Flag Counter