Maktaba Wahhabi

509 - 545
دہانی“اُسے قتل جیسے جرم کے ارتکاب کے لیے دلیر کر دیتی ہے املاک کے بیمہ دار اپنی املاک کو اپنے ہاتھوں تلف کرتے دیکھے گئے ہیں ایسی ہی صورت بیمہ کی دوسری شکلوں میں بھی ہے۔ 6۔اگر کوئی شخص بیمہ جاری نہیں رکھ سکتا اور کسی مجبوری کی بنا پرپالیسی سرنڈر(Surrender) یعنی ختم کرنے پر مجبور ہے تو اسے ادا کردہ رقم کے 40فیصد بحق بیمہ کمپنی سے دست بردار ہونا پڑتا ہے، شریعت اس رقم کو ضبط کرنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتی۔ 7۔نہ تو بیمہ دار کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنی قسطیں ادا کرے گا اور نہ بیمہ کمپنی کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا وصول کرے گی اور اُسے کیا کچھ ادا ئیگی کرنا پڑے گی۔ لہٰذا یہ”اندھاسودا“بیع غرر(دھوکے والی بیع) ہے جو قطعاً ناجائز ہے۔ مندرجہ بالا قباحتوں کو سامنے رکھتے ہوئے انشورنس کی حقیقت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل خرابیاں نمایاں طور پر پائی جاتی ہیں: 1۔رباء(Interest) 2۔قمار(Gambling) 3۔غرر(Uncertainty) 4۔اس کے علاوہ بعض علماء نے اور خرابی بھی ذکر کی ہے اور وہ ”بیع الکالی بالکالی ہے“(یعنی اُدھار کو اُدھار کے بدلے فروخت کرنا) جو کہ شرعاً ناجائز ہے۔ مذکورہ شرائط اور اس میں پائی جانے والی شرعی قباحتوں کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیمہ(Insurance) اپنی ہر شکل میں قطعی ناجائز ہے اور اس سے متعلقہ تمام ادارے سود پر مبنی اداروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
Flag Counter