اشعری رضی اللہ عنہ نے بیت المال کی رقم سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادگان کو نفع پہنچانے کے لیے وہ رقم انہیں بطور قرض دے دی تاکہ اگر تلف ہو تو بیت المال کا نقصان نہ ہو اور فائدے کی صورت میں دونوں بھائیوں کو نفع ہو اور بیت المال کی رقم بھی مکمل ادا ہوجائے۔ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جو کیا یہ حضرت عمر بیٹوں کو نفع پہنچانے کا ایک حیلہ تھا اسی طرح کام ہوگیا اور بعد میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صاحبزادوں کے درمیان پائے جانے والے تنازع کو مضاربت کا حکم لگا کر ختم کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی راضی ہوگئے،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بھی تنازعہ ختم کرنے کا ایک حیلہ تھا اس سے معلوم ہوا کہ حیلہ مطلقاً حرام نہیں ہے، لیکن بعض علماء کرام محض حنفیت کی مخالفت میں جو یکسر اس کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں وہ قرین انصاف نہیں ہے البتہ جہاں حیلہ کر کے شرعی احکام میں ردو بدل کیا جائے اسلام کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردیا جائے جس سے اسلام کی اصل روح ہی پلٹ جائے تو وہاں نہ صرف حیلہ حرام ہے بلکہ اُس کی جس قدر مذمت کی جائے وہ کم ہے ہمیں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ہمیشہ راہ اعتدال اختیار کرنی چاہیے اور بلا شبہ راہ اعتدال ہی راہ حق ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ، الحساب الجاری کے علاوہ بینک کے ساتھ دیگر معاملات بھی کئے جا سکتے ہیں، مضاربہ، مشارکہ ، سلم ، استصناع ، مرابحہ اور اجارہ وغیرہ لیکن جو بھی معاملہ کیا جائے گا اُس معاملے کی شرائط و ضوابط کا اطلاق ہوگا جس کی پابندی فریقین پر لازم ہوگی ان میں سے ہرایک کی تفصیلی بحث گزشتہ صفحات میں اپنے اپنے محل پر گزر چکی ہے۔
|