Maktaba Wahhabi

498 - 545
عُمَرَ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوْ جَعَلْتَهُ قِرَاضًا ؟ فَقَالَ عُمَرُ : قَدْ جَعَلْتُهُ قِرَاضًا ، فَأَخَذَ عُمَرُ رَأْسَ الْمَالِ وَنِصْفَ رِبْحِهِ ، وَأَخَذَ عَبْدُ اللّٰهِ وَعُبَيْدُ اللّٰهِ ابْنَا عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ نِصْفَ رِبْحِ الْمَالِ."[1] ”زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دو بیٹے عبد اللہ اور عبید اللہ بغرض جہاد عراق گئے جب واپس آنے لگے تو حاکم بصرہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ملے، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہنےلگے میں تمھیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہتا ہوں جس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ میں بیت المال کی کچھ رقم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھیجنا چاہتا ہوں وہ میں تمھیں بطور قرض دے دیتا ہوں اس رقم کا مال خرید لو اور مدینہ جا کر بیچ دینا۔نفع خود رکھ لینا اور اصل رقم امیر المؤمنین کو دے دینا، دونوں اس بات پر خوش ہو گئے اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ایک تحریر بنام المؤمنین لکھ دی کہ اتنی رقم (اصل رقم) عبداللہ اور عبید اللہ رضی اللہ عنہما سے وصول کر لیں۔ چنانچہ انھوں نے عراق سے مال خریدا اور مدینہ بیچ کر نفع حاصل کیا اور اصل زر لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حقیقت حال معلوم ہوئی تو ان سے پوچھا کہ کیا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے سب لوگوں کو اتنااتنا روپیہ دیا تھا انھوں نے کہا نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے پھر تمھیں امیر المؤمنین کا بیٹا سمجھ کر یہ روپیہ دیا ہوگا اب بہتر یہ ہے کہ تم اصل اور نفع دونوں دے دو، عبد اللہ رضی اللہ عنہ تو چپ رہے مگر عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے۔امیر المؤمنین!اگر مال تلف ہو جاتایا کاروبار میں نقصان ہو جاتا تو بھی ہم پوری ادائیگی کے ذمہ دار تھے لہٰذا یہ ہمارا حق بنتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
Flag Counter