Maktaba Wahhabi

496 - 545
قائم رہے۔ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ نے مزید یہ بھی فرمایا کہ وہ ایسا اس لیے بھی کرتے تھے تاکہ اس مال سے تجارت کرنا اور فائدہ کمانا ان کے لیے جائز ہو جائے۔“ اس طریقے سے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس کتنی بڑی رقمیں ہو جاتی تھیں؟اس کا اندازہ طبقات ابن سعد رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے کیجئے: "قَالَ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ الزُّبَيْرِ : فَحَسَبْتُ مَا عَلَيْهِ مِنَ الدَّيْنِ فَوَجَدْتُهُ أَلْفَيْ أَلْفٍ وَمِائَتَيْ أَلْفٍ."[1] ”حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کے ذمے واجب الادا قرضوں کا حساب لگایا تو بائیس لاکھ نکلے۔“ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جیسے متمول صحابی پر یہ بائیس لاکھ روپے کا قرض ظاہر ہے کسی صرفی اور وقتی ضرورت کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ امانتوں کا سرمایہ تھا اور یہ تمام سرمایہ کاروبار ہی میں مشغول تھا، کیونکہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے وفات سے قبل اپنے صاحبزادے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ ہماری تمام املاک کو فروخت کر کے یہ رقم ادا کی جائے، اس کی تصریح بھی طبقات ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ ہی میں موجود ہے: "يَا بُنَيِّ بِعْ مَالَنَا ، فَاقْضِ دَيْنِي."[2] ”اے میرے بیٹے!ہمارا مال فروخت کر کے میرا قرضہ ادا کرنا۔“ اسلامی بینکوں کے خلاف آواز اُٹھانے والے بعض معترضین نے اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ اسلامی بینک کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھوائی گئی رقم سے استفادہ کرتے ہیں یعنی اُن کی نظر میں یہ معیوب اور ناجائز فعل ہے،
Flag Counter