Maktaba Wahhabi

466 - 545
اس بات کو ایک مثال سے سمجھئے۔ فرض کیجئے (الف) اور(ب) میں بیع سلف کا معاہدہ ہوتا ہے اس وقت گندم کا بھاؤ ایک ہزار روپے من ہے۔(الف) رقم دینے والا ہے اور(ب)رقم لینے والا تین ماہ بعد گندم کی نئی فصل تیار ہوگی لہٰذا تین ماہ مدت طے پاتی ہے اب دونوں اندازہ لگاتے ہیں کہ فصل پکنے پر گندم کا بھاؤ900 روپے من ہو جائے گا اس حساب سے(الف)پانچ من گندم کی قیمت بحساب 900روپے، تین ماہ کی میعاد پر کل رقم 4500(ب)کو دے دیتا ہے اب گندم پکنے پر بھاؤ 900 کے بجائے800روپے تک آجاتا ہے اور 5روپےمن گندم(ب)کو4000روپے میں مل سکتی ہے مگر وہ پابند ہے کہ 4500روپے میں پانچ من ہی گندم (ب) سے وصول کرے گویا ایسی بیع میں بھی نقصان کا احتمال ہے اورجس بیع کا نقصان کا احتمال ہو موجود ہووہ سُود نہیں ہوتا۔ 2۔آج کل بڑے پیمانے پر سلف کاکاروبار نہیں ہوتا زمیندار اپنی ضرورت کی رقم اپنے آڑھتی سے پیشگی لے لیتے ہیں اور اس کے عوض وہ صرف اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جنس اسی آڑھتی کےپاس لے جائیں جس سے اُنھوں نے اُدھار لیا ہے ان کی جنس موجودہ نرخ پر بکتی ہے۔ آڑھتی کا مفاد صرف یہ ہوتا ہےکہ اگر وہ خود جنس خریدتا ہے تو فبہا ورنہ کمیشن تو مل ہی جاتا ہے اور دکان کی شہرت بھی ہوتی ہے اور زمینداریا قرض لینے والے کا بھی کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ 3۔بیع سلم آج کل صرف چھوٹے پیمانے اور گھریلو سطح پر ہوتی ہے فریقین کی ضرورت کامسئلہ ہے ضرورت والے کو پیشگی رقم مل جاتی ہے اور دینے والے کو بالعموم فائدہ ہو جاتا ہے۔ چھوٹی ضرورت والے یا غیر زمیندار آڑھتی کے پاس تو جا نہیں سکتے وہ اپنی ضرورت اس طرح پوری کر لیتے ہیں۔
Flag Counter