Maktaba Wahhabi

437 - 545
دوسرے شریک کو کرایہ پر دے تو جائز ہے، علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ولا تجوز إجارة المشاع لغير الشريك إلا أن يؤجر الشريكان معا، وهذا قول أبي حنيفة وزفر لأنه لا يقدر على تسليمه فلم تصح إجارته كالمغصوب وذلك لأنه لا يقدر على تسليمه الا بتسليم نصيب شريكه ولا ولاية له على مال شريكه واختار أبو حفص العكبري جواز ذلك، وقد أومأ إليه احمد وهو قول مالك والشافعي وأبي يوسف ومحمد لأنه معلوم يجوز بيعه فجازت اجارته كالمفروز ولأنه عقد في ملكه يجوز مع شريكه فجاز مع غيره." [1] ”غیر شریک کو مشاع (مشترک) چیز کرائے پر دینا جائز نہیں ہے، الایہ کہ اگر دونوں شرکاءاکٹھے ملکر کسی اجنبی کو کرایہ پر دیں(تو جائز ہے)یہ قول امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام زفررحمۃ اللہ علیہ کا ہے، اس لیے کہ غیر منقسم حصہ کرایہ دار“کو سپرد کرنا ممکن نہیں ہے، لہٰذا اس کو کرایہ پردینا صحیح نہ ہوا، البتہ ابو حفص العکبری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواز کو اختیار کیا ہے، اسی طرف امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے عندیہ دیا ہے اور یہی قول امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا ہے اس لیے کہ وہ ایک معلوم چیز ہے اور اس کی بیع بھی جائز ہے لہٰذا اس کو کرایہ پر دینا بھی جائز ہوا جس طرح الگ اور غیر مشترک شئے کا حکم ہے اور اس لیے بھی کہ وہ اپنی ملکیت میں
Flag Counter