Maktaba Wahhabi

428 - 545
بنظر غائر دیکھا جائے تومؤخر الذکر دونوں ائمہ کرام(امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے مثبت رائے ہے اور عدمِ جواز کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ 4۔ہرشریک کے نفع کی شرح کاروبار میں حقیقتاً ہونےوالے نفع کی نسبت سے طے ہونی چاہیے،اس کی طرف سے کی جانے والی سرمایہ کاری کی نسبت سے نہیں،یہ جائز نہیں ہے کہ کسی شریک کے لیے کوئی لگی بندھی مقدار مقرر کرلی جائے یا نفع کی ایک شرح طے کرلی جائے جو اس کی طرف سے لگائے گئے سرمائے سے منسلک ہو(یعنی کسی شریک کے بارے میں یہ طے کرلینا کہ وہ اپنی لگائی ہوئی رقم کااتنا فیصد منافع لے گا یہ جائز نہیں ہے)۔ لہٰذا اگر”الف“اور”ب“ ایک شراکت کرتے ہیں اور یہ طے کرلیاجاتا ہے کہ”الف“ماہانہ دس ہزار روپیہ اپنے نفع کے طور پر لے گا اور باقی ماندہ سارا نفع”ب“ کا ہوگا،تو یہ شرکت شرعاً صحیح نہیں ہوگی،اسی طرح اگر اس بات پراتفاق کرلیا جاتا ہے کہ”الف“ اپنی سرمایہ کاری کا پندرہ فیصد بطور منافع وصول کرے گا تو بھی یہ عقد صحیح نہیں ہوگا۔نفع تقسیم کرنے کے صحیح بنیاد یہ ہے کہ کاروبار کو حاصل ہونے والے حقیقی نفع کا فیصد طے کیا جائے،یعنی جو بھی نفع ہو اُس کا فرض کرلیجئے 60فیصد ”الف“ کااور 40 فیصد”ب“کا ہوگا یہ درست اور جائز شکل ہے۔ 5۔نقصان کی صورت میں تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ ہر شریک اپنی سرمایہ کاری کی نسبت ہی سے نقصان برداشت کرے گا،لہٰذا اگر ایک حصّہ دار نے چالیس فیصد سرمایہ لگایا ہے تو اسے لازماً خسارے کا بھی چالیس فیصد ہی برداشت کرنا ہوگا،اس سے کم یا زیادہ نہیں اس کے خلاف معاہدے میں جوشرط بھی لگائی جائے گی اس سے معاہدہ غیر صحیح اور باطل ہوجائے گا۔
Flag Counter