Maktaba Wahhabi

395 - 545
جس چیز کا خریدار آیا،بینک وہی چیز خرید کر اُس کو بیچ دیتا ہے اور اس خریداری کے لیے بھی اُسی شخص کو اپنا وکیل بنادیتا ہے اور وہ بازار سے وہ چیز بینک کے لیے خریدتا ہے،پھر بینک سے اُدھار خرید لیتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان دو وجہوں سے اس معاملے کو ایک ناجائز حیلہ کہا جاسکتا ہے؟ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بینک کے پاس کوئی سامان موجود نہیں ہوتا،بلکہ اس کے پاس چیز کا گاہک آتا ہے،بینک اُسے خرید کر گاہک کو بیچ دیتا ہے،ظاہر ہے کہ اگرخرید کر اپنی ملکیت اور ضمان میں لاکر بیچے تو اس پر کوئی فقہی اشکال نہیں ہوسکتا..............................یہاں پہلی بات تو یہ واضح کرنامناسب ہے کہ گاہک ہی کو وکیل بنانے کاطریق کارہمیشہ اختیار نہیں کیا جاتا،بہت سی صورتوں میں بینک براہ راست خریداری کرکے گاہک کو بیچتا ہے اور غیر سودی بینکوں کے شریعہ بورڈ بکثرت اپنے اپنے اداروں پرزوردیتے ہیں کہ وہ جہاں تک ہوسکے براہ راست خریداری کریں، گاہک کو وکیل نہ بنائے اور اب رفتہ رفتہ یہ رجحان پیدا بھی ہورہا ہے“۔[1] آخر میں بینک اسلامی کے بروشر سے مآخوذ عبارت بھی ملاحظہ فرمائیں جس سے معترض کا اعتراض ختم ہوجانا چاہیے،چنانچہ مرابحہ کے ضمن میں اشیاء کی ملکیت اور قبضہ کے عنوان سے درج ہے کہ: ”اِسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ایسی چیز کی فروخت ممکن نہیں جو فروخت کرنے والے کی ملکیت میں نہ ہو۔لہٰذا بینک اسلامی مرابحہ میں اس بات کویقینی بناتا ہے کہ جو اشیاء فروخت کی جارہی ہیں وہ فروخت کے وقت بینک کی ملکیت اور قبضے میں آچکی ہوں۔فقہاء کرام کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق کسی چیز کے قبضے میں آنے کے دو طریقے ممکن ہیں:
Flag Counter