Maktaba Wahhabi

393 - 545
اُدھار بیچ دیتا۔اس کو بیع عینہ(Buy Back) کہتےہیں۔اس طرح حقیقتاً مرابحہ کی بجائے نفع(Mark up) کو”بائی بیک“سے وابستہ کردیاگیا۔جو شرعی اعتبار سے بالکل ناجائز ہے کیونکہ ایک یہ شخص سے کم قیمت پر خرید کر فوراً ہی اسے زیادہ قیمت پر اُدھار بیچ دینا درحقیقت سودی قرض ہی کی ایک شکل ہے جب کہ پہلی خریداری میں ہی یہ شرط ہوتی ہے کہ اسے دوبارہ بیچ دیا جائے گا۔ 2۔(Buy Back) کاحیلہ بھی حقیقت میں نہیں ہوتا،عموماً محض فرضی کاروائی ہوتی ہے۔ایسا کوئی سامان سرےسےموجود ہی نہیں ہوتا جس پر بائی بیک کیا جارہاہو۔حتی کہ اداروں کےایسےاخراجات جن سے کوئی چیزخریدی نہیں جاتی مثلاً تنخواہیں،بلوں کی ادائیگی وغیرہ ان کےلیےبھی بینکوں سے مرابحہ قرض مل جاتاہے۔ 3۔اگر(Buy Back) نہ بھی ہو، حقیقت میں مرابحہ ہی ہوتو بھی اس بات کا اہتمام نہیں کیا جاتا کہ جس سامان کو مرابحہ بیچا جارہا ہے،وہ پہلے بینک کےقبضے اور ضمان میں آئے،حالانکہ مرابحہ کے درست ہونے کے لیے اس سامان کا پہلے بینک کے قبضےاور ضمان میں آناضروری ہے۔ 4۔بینک کےپاس جب کوئی شخص سرمایہ حاصل کرنے کے لیے آتا ہے توبینک تحدید السقف(تمویل کی حد) مقرر کردیتاہے کہ اتنے سرمائے کی حد تک بینک مرابحہ کرنے کے لیے تیار ہے۔معاہدے(Agreements) پر دستخط کرالیےجاتے ہیں۔ اس وقت بینک اس شخص کو سامان خریدنے کا وکیل بھی بنادیتا ہے۔لیکن اس وقت کوئی بیع منعقد نہیں ہوتی،بلکہ وہ محض ایک باہمی معاہدہ ہوتا ہے کہ بینک حسب ضرورت ان شرائط پر اپنے گاہک کو اس کی ضرورت کی اشیاء خرید کر فراہم کریگا،اب ضرورت اس بات کی تھی کہ جب گاہک کو کسی چیز کی ضرورت ہوتو وہ بینک کو بتائے،پھربہتر طریقہ تو یہ ہوتا کہ بینک وہ چیز اپنے ذرائع
Flag Counter