بخود مہلت کے حسب سے بڑھتا رہتا ہے لیکن علماء کا پیش کردہ طریقہ جو اسلامی بینکوں کے لیے وضع کیا گیا ہے وہ یہ کہ مرابحہ یا اجارہ کے معاہدہ (Agreements)میں کلائنٹ یہ وعدہ کرتا ہے کہ ادائیگی کی تاخیر کی صورت میں اتنی رقم کسی خیراتی ادارے یا خیراتی کام میں خرچ کرے گا، یہ رقم نہ جرمانہ ہے اور نہ ربا بلکہ کلائنٹ کی طرف سے التزام (Undertaking) کا نتیجہ ہے۔“[1]
مزید فرماتے ہیں کہ:
”اصولی طور پر سُودی بینکوں کے جرمانے اور مذکورہ صدقے میں دو واضح فرق موجود ہیں:۔
1۔ مارک اَپ بینک کی آمدنی کا حصہ بنتا ہے ، جبکہ صدقہ بینک کی آمدنی کا حصہ نہیں بنتا، بلکہ بینک پر شرعاً لازم ہے کہ اسے کسی خیراتی کام(Charity)میں خرچ کرے۔
2۔جرمانہ بینک کے معاف کرنے سے معاف ہوجاتا ہے کیونکہ یہ کلائنٹ اور بینک کے باہمی معاملے کی وجہ سے ہوتا ہے، جبکہ صدقہ بینک کے معاف کرنے سے معاف نہیں ہوتا کیونکہ یہ بندے اور اللہ جل جلالہ کا معاملہ ہے،بینک کے معاف کرنے کا زیادہ سے زیادہ یہ مطلب ہوگا کہ اس کی ادائیگی بینک کے ذریعے ضروری نہیں ہو گی۔ لیکن اپنے طور پر اس کو بہر حال صدقہ کرنا ضروری ہوگا۔“[2]
اس فلسفے سے راقم کو شدید اختلاف ہے کیونکہ یہ فرق قطعی مختلف نہیں ہے، مزید تو ضیح باب
|