Maktaba Wahhabi

338 - 545
یا ذاتی نوعیت کا کاروباری،مدرسوں اور مسجدوں کا فنڈ ہو کالجوں اور یونیورسٹیوں کا۔ عصر حاضر میں رقوم کی حفاظت اور منتقلی کا یہی مؤثر ذریعہ ہے ،علماء کرام یہ بات توبڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ بینکوں کے کھاتے حرام ہیں،اس کی نوکری حرام ہے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حرام ہے لیکن جب اپنا اماؤنٹ بینکوں میں رکھتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ یہ ہماری مجبوری ہے اور ہم نے کونسا(PLS) میں رکھاہے۔ہم نے تو کرنٹ اکاؤنٹ کھلوایا ہے جو ہمیں سُودنہیں دیتا ،ٹھیک ہے کرنٹ اکاؤنٹ کے ذریعہ آپ سُود کھا نہیں رہے لیکن کھلا تو رہے ہیں،جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بوجہ سود چار قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے اُن میں صرف کھانے والا ہی نہیں بلکہ کھلانے والا بھی شامل ہے(آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ) اس لعنت سے بچنے اوردوسرے مسلمان بھائیوں کو اس لعنت سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا حلال متبادل تلاش کیا جائے اور یہ متبادل ہمیں اسلامی بینکوں کی صورت میں نظر آرہا ہے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آنکھیں بند کرکے اس کی حلت کا فتویٰ دے دیا جائے،لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ آنکھیں کھول کر اس میں پائے جانے والے سقم کو دور کیا جائے،اس لیے کہ یہ اقدام ان شاء اللہ ہمیں حلال کی جانب ضرور لے جائے گا اور جتنا جتنا ہمیں حلال سے قربت نصیب ہوتی جائے گی اُتنا اُتنا ہمیں حرام سے دوری بھی حاصل ہوتی جائے گی۔ لہٰذا سرے سے اسلامی بینکوں کی افادیت سے انکار کردینا قطعاً مفید نہیں ہے البتہ ان میں پائی جانے والی خرابیوں کو دور کیا جائے تو یہ یقیناً ایک مستحسن اقدام ہوگا اور قوم وملک کے ساتھ ساتھ دین کی بھی خدمت ہوگی اورجب بینک ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں تو پھر کیوں نہ اسلامی بینکوں کو فروغ دیا جائے اور سودی معیشت سے نجات کے لیے سودی بینکوں سے بھی اجتناب کیا جائے کیونکہ سودی بینکوں میں رقم رکھوانا بھی گناہ میں تعاون کے مترادف ہے لہٰذا بحیثیت مسلمان ہمیں حلال معیشت اختیار کرنی چاہیے۔
Flag Counter