Maktaba Wahhabi

327 - 545
ساتھ نبھانے کا عزم رکھتے ہوں،لیکن فقہائے احناف نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اُس میں نہ تو وہ مقصدیت موجود ہے اور نہ حقیقی نبھا کاکچھ عمل دخل ہے بلکہ اس حلالے کےپورے عمل میں کہیں بھی وہ مقصد کارفرمانہیں ہے،جس کا تقاضا قرآن کررہا ہے اور یہ تمام ترسلسلہ مصنوعی(Artificial) اور اصل مقاصد سے ہٹ کرہے،صرف نیت اور مقاصد کےتبدیل ہوتے ہی حلّت وحرمت کی فصیل کھڑی ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربا اورحلالے کو ایک ہی قبیل میں شمارکیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ لعَنَ رسولُ اللّٰهِ صلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّمَ الواشِمةَ، والمُتَوشِّمةَ، والواصلةَ، والمَوصولةَ، والمُحَلِّلَ، والمُحَلَّلَ له، وآكِلَ الرِّباوَمُطْعِمَهُ)[1] ”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !نے(اُن عورتوں پر جو اپنے حسن کےلیے) جسم گودتیں اور گودواتی ہیں،اضافی بال لگاتی اور لگواتی ہیں اور حلالہ کرنے والے اور کرانے والے پرسُود کھانے اور کھلانے والے پر لعنت کی۔“ اس وقت اسلامی بینکاری کا معاملہ بھی بعض معاملات میں(Same)یہی ہے کہ اسلامی تجارتی معاہدات کی شکل و صورت تو اپنالی گئی ہے لیکن حقیقی تقاضے پورے کرنے کی بجائے حیلہ سازی سے کام لیا جا رہا ہے جو نہ صرف معیوب ہے بلکہ حلال کارو بار کو بھی حرام میں تبدیل کردیتا ہے۔ مثلاً:کسی شخص کو مکان خریدنا ہے لیکن اُس کے پاس رقم نہیں ہے تو وہ اسلامی بینکوں کی طرف رجوع کرتا ہے اسلامی بینک اُسے رقم نہیں دے گا بلکہ اُسے کہے گا کہ تم مکان پسند کرو رقم ہم مالک مکان کو دیں گے لیکن مکان پسند کرتے وقت
Flag Counter