جب وہ بازی لگاتا ہے تو ہارنے کی صورت میں اس کی اپنی پونجی بھی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور اگر وہ بازی جیت لیتا ہے تو دوسرے بازی لگانے والوں کا سرمایہ بھی اس کو مل جاتا ہے اس میں سراسر نقصان یا سراسر فائدہ ہے۔
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ میسر(جوا) کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"لأنَّ الْمَيْسِرَ مَا يُوْجِبُ دَفْعَ الْمَالِ ،أوْأخْذَ مَالٍ."[1]
”یعنی قمار اس کو کہتے ہیں جس میں سارا مال ہاتھ سے نکل جاتا ہے یا سارا اس کی جھولی میں آگرتا ہے۔
علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
قمار،قمر سے ماخوذ ہے اور قمر کبھی بڑھتا رہتا ہے کبھی گھٹتارہتا ہے اورقمارکو قمار کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جو جوا کی بازی لگاتے ہیں تو کسی کا سارا مال اس کے ساتھی کو مل جاتا ہے اور کبھی اس کے ساتھی کا مال اُسے مل جاتا ہے۔
جب ایک مال بغیر کسی استحقاق کےدوسرے کو مل جاتا ہے تو اس سے بغض وعناد کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں اور باہمی محبت وایثار کے جذبات کا نام ونشان نہیں رہتا،کیونکہ یہ اکل بالباطل اَور عداوت کے جذبات کو فروغ دینے کا باعث ہے اس لیے شریعت اسلامیہ نےقمار کو حرام کردیا ہے؛
1۔اللہ جل جلالہ کاارشاد ہے:
﴿لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾[2]
”تم آپس میں اپنے اموال باطل اور ناجائز ذریعہ سے مت کھاؤ۔“
|