Maktaba Wahhabi

247 - 545
رہوں گی لہٰذا میری(اس بارے میں) مدد کریں میں نے(اسے) کہا کہ اگر تیرے مالک کو یہ پسند ہو کہ میں تیری مجموعی رقم یکمشت ادا کردوں اور تیری ولاء میری ہوجائے تو میں ایسا کرنے کو تیار ہوں۔حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا یہ تجویز لے کر اپنے مالک کے پاس گئی اور ان سے یہ کہاتو انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا،حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس سے واپسی آئی،اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرماتھے،حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے وہ تجویز پیش کی تھی مگرانہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیاہے اور وہ کہتے ہیں کہ ولا ان کے لیے ہے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس واقعہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کیا یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے لو اور ان سے ولاء کی شرط کرلو کیونکہ ولاء کا حق دار وہی ہے جو اسے آزادی دے،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں خطاب فرمانے کھڑے ہوئے اللہ جل جلالہ کی حمدوثنا کی پھر فرمایا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں(یادرکھو! کہ) جو شرط کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے ،خواہ سینکڑوں شرطیں ہی کیوں نہ ہوں اللہ جل جلالہ کا فیصلہ نہایت برحق ہے اور اللہ جل جلالہ کی شرط نہایت ہی پختہ اور پکی ہے ،ولاء اسی کا حق ہے جو آزاد کرے۔ مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے 9 اوقیہ چاندی 9 سال کی قسطوں پر خریدی ہر سال اُسے ایک اوقیہ ادا کرناتھا یہ صورت بھی جائز ہے۔
Flag Counter