Maktaba Wahhabi

205 - 545
فَيَحْتَكِرُونَهُ عَلَيْنَا ، وَلَكِنْ أَيُّمَا جَالِبٍ جَلَبَ عَلَى عَمُودِ كَبِدِهِ فِي الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ ، فَذَلِكَ ضَيْفُ عُمَرَ فَلْيَبِعْ كَيْفَ شَاءَ اللّٰهُ ، وَلْيُمْسِكْ كَيْفَ شَاءَ اللّٰهُ)[1] ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہمارے بازار میں کوئی احتکار نہ کرے جن لوگوں کو ہاتھ میں حاجت سے زیادہ روپیہ ہے وہ کسی ایک غلہ کو جو ہمارے ملک میں آئے خرید کر احتکار نہ کریں اور جو شخص تکلیف اٹھا کر ہمارے ملک میں غلہ لائے سردی یا گرمی میں تو وہ عمر رضی اللہ عنہ کا مہمان ہے جس طرح اللہ کو منظور ہو بیچے اور جس طرح اللہ کو منظور ہورکھ چھوڑے۔“ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس لیے فرمایا کہ غلہ لانے والے خوش ہوکر زیادہ سے زیادہ غلہ لائیں اور ملک میں ارزانی ہو۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "وَفِي الْبَابِ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَأَبِي أُمَامَةَ وَابْنِ عُمَرَ. وَحَدِيثُ مَعْمَرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا احْتِكَارَ الطَّعَامِ. وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي الاِحْتِكَارِ فِي غَيْرِ الطَّعَامِ."[2] ”اس باب میں حضرت عمر ،حضرت علی،حضرت ابوامامہ،حضرت ابن عمر اور معمر رضی اللہ عنھم سے مروی حدیث حسن صحیح ہے اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ غلّے میں احتکار ناپسندیدہ ہے بعض نے غلّے کے علاوہ اجازت دی ہے۔“
Flag Counter