ایسی صورت میں ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ شبہات میں پڑنے کے بجائے یقینی اور واضح صورت کو اختیار کرے کسی بھی معاملے میں شریعت نے شک پر فیصلے کو پسند نہیں کیا بلکہ ہمیشہ شک اور شبہ کو ترک کرکے یقینی صورت پر عمل کا حکم دیا۔
مثلاً(i) چاند کا معاملہ ہو اور 29 تاریخ کو بادل ہوجائیں تو یہاں چاند کا ہونا یقینی نہیں بلکہ شک پر مبنی ہے کہ بادلوں کے پیچھے چاند ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی اس لیے حکم ہوا اگر تم پر بادل چھاجائیں تو تیس دن پورے کرو اس لیے کہ تیس تاریخ یقینی ہے کیونکہ قمری مہینہ تیس دنوں سے تجاوز نہیں کرتا۔
(ii) نمازمیں سہو واقع ہوتو اُس صورت میں بھی ہمیں حکم ہے کہ دو عددوں میں سے جو کم ہواُس پر فیصلہ کرو اس لیے کہ کم یقینی ہے اورزیادہ میں شک ہے،جیسے میں نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار شبہ کی صورت میں تین یقینی ہے اورشبہ چار میں ہے دو اور تین میں شبہ ہونے کی صورت میں دویقینی ہے اور تین میں شبہ ہے۔اس لیے کم پر فیصلے کا حکم ہے کیونکہ وہ یقینی ہے پھر ایک رکعت پڑھ کر اُس کمی کو پورا کرے اور سجدہ سہو کرے۔
اسی طرح حلال وحرام کا معاملہ ہے اس میں شبہ یا تو دلائل کے باہمی و ظاہری اختلاف کی بنا پر ہوگا یا علماء کرام کی مختلف رائے بھی شبہ کا سبب بن سکتی ہے،شبہ کا سبب کچھ بھی ہو ہمارے ایمان کی سلامتی اور دین کی حفاظت اسی میں ہے کہ ہم شبہات میں پڑنے کے بجائے اُس سے اجتناب کریں۔
|