Maktaba Wahhabi

155 - 545
برابر ہوں گی تو درست ہے ورنہ بیع درست نہ ہوگی اس حدیث میں (مِثْلاً بِمْثلٍ) سے رباء الفضل کی نفی کردی گئی اور (يَدًا بِيَدٍ)سے رباء النسیئہ کا دروازہ بند کردیا گیا ہے۔ اس ضمن میں مزید یہ بات بھی غورطلب ہے کہ اگر جنسیں باہم بدل لی جائیں مثلاً چاول کا تبادلہ گندم سے اور جَو کا تبادلہ نمک سے اور کھجور کا تبادلہ کشمش سے(مِثْلاً بِمْثلٍ) والی شرط ختم ہو جائے گی یعنی پھر وزن اور مقدار میں کمتی بڑھتی ہو سکتی ہے مثلاً تین کلو گندم کا تبادلہ دو کلو چاول سے کریں یا دس کلو نمک کا تبادلہ چار کلو جو سے کریں درست ہے البتہ (يَدًا بِيَدٍ)یعنی نقد و نقد والی شرط برقرار رہے گی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ)) [1] ”پس اگر یہ جنسیں (باہم) مختلف ہون تو جیسے چاہو سودا کرو بشرطیکہ یہ سودا نقد و نقد ہو۔“ دوسری جائز شکل یہ ہے کہ زید اپنے چاول قیمتاً کردے اور بکر کے پاس جو گندم ہے وہ قیمتاً فروخت کردے اس طرح ہر جنس خریدی اور بیچی جا سکتی ہے۔ سونا، چاندی، کاغذی نوٹ، گندم ،چاول، کھجور، اسی طرح خوراک کی دیگر تمام اقسام میں ہر قسم ایک الگ جنس کا حکم رکھتی ہے، جیسے گندم کے بدلے گندم چاول کے بدلے چاول، مکئی کے بدلے مکئی،کھجور کے بدلے کھجورلی اور دی جا رہی ہو تو اُسے وزن اور مقدار میں برابر ہونا چاہیے اگرچہ ایک جنس بڑھیا اور ایک جنس گھٹیا کیوں
Flag Counter