’’تقویٰ قرآن کا ایک بڑا اہم موضوع ہے۔تقویٰ ضمیر کے گہرے احساس کا نام ہے ایمان کی نشانی ہے۔ ‘‘
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا (التَّقْوٰى هٰهُنَا) تقویٰ اس جگہ ہے۔تقوی کی جگہ دل ہے۔
تقوی کی ضرورت انسان کو زندگی کے ہر موڑ پر پڑتی ہے۔ کاروبار ، سیاست ، عدالت، نکاح، طلاق،میاں بیوی کے معاملات(سورۃ طلاق کےپہلے رکوع میں 6 مرتبہ تقوی کا ذکر کیا گیاہے) میں تقوی بنیادی اصول ہے جس کو سامنے رکھ کر بچے کی تربیت کی جائے گی۔
حضرت عبد اللہ بن دینار کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ کے ارادہ سے نکلا۔کہ راستے میں پہاڑ سے ایک چرواہا اترا۔عمر رضی اللہ عنہ نے چرواہےسے کہا کہ ان دنبوں میں سے ایک دنبہ میرے ہاتھ بیچ دو۔
چرواہا کہنے لگا میں تو غلام ہوں اور یہ میرے مالک کے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا امتحان لینے کی غرض سے کہا کہ تم مالک کو کہہ دینا کہ اس کو بھیڑ یا کھا گیا ہےتو چرواہا کہنے لگا کہ میں اللہ کو کیا جواب دوں گا۔یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور اس چرواہے کے ساتھ مالک کے پاس گئے اور اس کو خرید کر آزاد کر دیا۔ اور فرمایا تمھیں اس ایک بات نے غلامی سے نجات دلا دی اور مجھے امید ہے کہ یہ تمھیں آخرت میں آگ سے بھی نجات دلا دے گی۔[1]
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ راتوں کو گلیوں میں گشت کرتے تھے۔ ایک گھر سے آواز آ رہی تھی دودھ میں پانی ملا دو اور بیٹی کہہ رہی تھی کہ نہیں امیر المومنین نے منع کیا ہے۔ ماں نے کہا امیر المومنین کب یہاں دیکھ رہے ہیں ؟بیٹی جواب دیتی ہے اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مکان پر نشان لگا دیا۔ صبح جا کر اپنے گھر میں بات کی اور اپنے بیٹے حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس لڑکی کا نکاح کر وا دیا۔انہی سے حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ پیدا
|