ملازمت صرف اسی کو ملے گی جو انگریزی جانتا ہو۔ دوسرا کام انگریز نے یہ کیا کہ جو جاگیریں مدارس اور مساجد کے ساتھ تھیں غصب کر لیں ۔ ان 2 کاموں کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔
حدیث نبوی ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔[1]
اسلامی نظام میں علم لازمی تھا اور مفت بھی۔ یہ ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ سب کو علم کے زیور سے آراستہ کرے۔ انبیاء جب اپنی قوم کے لوگوں کو تعلیم دیتے تو ان کا کہنا ہوتا۔
’’کہہ دیجیے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا میرا اجر تو میرے اللہ کے پاس ہے۔‘‘ (سبا : 47)
تمام انبیاء کی اپنی قوم کو تعلیم بے لوث ہوتی۔ تمام مدارس اسی طریقے پر چلتے ہیں ۔ آج جو تعلیم مہنگی ہوئی ہے و ہ 20 سال قبل نہیں تھی۔ حکومت نے دو غلطیاں کیں ایک یہ کہ تعلیم کا بجٹ کم کر دیا ۔دوسرے یہ تھی تعلیمی اداروں کو اجازت دے دی یوں تعلیم تجارت بن گئی تعلیم مہنگی ہو گئی۔
تعلیم سے انسان کی عقل کی تربیت ہوتی ہے۔ تربیت کرنے والوں چاہیے کہ بچے جب تھوڑے بڑے ہو جائیں تو قرآن مجید، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور احادیث وغیرہ پڑھنے کا انتظام دیں ۔ تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل ہو۔
اپنی اولادوں کو تین باتوں کی تعلیم دو:
1: اپنے نبی کی محبت
2: ان کے اہل بیت کی محبت
3: تلاوت قرآن[2]
امام غزالی ؒفرماتے ہیں کہ بچوں کو قرآن مجید ،فہم حدیث، نیک لوگوں کی سیرت اور
|