قرآن میں ایک دعاہمیں سکھائی گئی:
﴿وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا﴾ (طٰہٰ : 114)
’’کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے برابر ہو سکتے ہیں ؟‘‘
جو شخص کسی ایسے راستے پر چلے جس میں وہ علم کو تلاش کر رہا ہو تو اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتے ہیں ۔[1]
ایک عالم کی فضیلت ایک عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک اد نیٰ آدمی پر ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اس کے فرشتے ، آسمان والے یہاں تک کہ چونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں سمندر کے پانی میں اس شخص کے لیے دعائیں کرتی ہیں جو لوگوں کو خیر سکھاتا ہے۔ مسلمانوں نے جو عزت حاصل کی وہ سب علم کی بدولت تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 سال کے عرصے میں بدووں کو پورے عرب کا جو مالک بنا دیا تھا۔ علم ہی کی وجہ سے تھا قرآن و حدیث کا یہ علم انہوں نے رسول اللہ سے سیکھا۔یہ اقتدار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی 1000 سال تک باقی رہا۔ تمام اسلامی ممالک میں تعلیم کا ایک وسیع نظام قائم تھا۔ قسطنطنیہ اور بغداد کی یونیورسٹیز ایسی تھیں کہ جن میں یورپ کے لوگ پڑھنے آتے تھے۔ جب مسلمانوں نے اللہ کی نافرمانی کی تو ذلت ان پر مسلط ہو گئی اور یورپ والوں نے ان پر برتری حاصل کر لی۔ انگریز نے پاک وہند پر قبضہ کیا تو اس وقت بھی ہندوستان میں خواندگی کی شرح ٪100 تھی۔ مدراس کی حکومت کی طرف سے جاگیریں الاٹ تھیں علماء بادشاہوں کے پاس نہ جاتے اپنے علم کا اتنا وقار باقی رکھتے کہ اگر بادشاہ بلاتے تو جانے سے انکار کر دیتے۔ مساجد کے ساتھ مدارس ہوتے سرائے ہوتی لنگر خانے ہوتے اور ان سب کے اخراجات ان جاگیر وں سے پورے ہوتے۔ انگریز نے سب کچھ دیکھا تو دو فیصلے کیے۔ پہلا یہ کہ مسلمانوں کو ان کے ماضی سے کاٹ دیا جائے۔ طے کردیا کہ سرکاری
|