انس بن مالک روایت کرتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میری اُمت میں ایسے لوگ آئیں گے جو کہ زنا ، ریشم ، شراب اور گانے بجانے کو حلال قرار دے دیں گے۔‘‘ [1]
حقیقت یہ ہے کہ ٹی وی اصلاً ایک ایجاد ہے۔ جس سے خیر کا بھی کام لے سکتے ہیں او رشرکا بھی۔ یہ دو دھاری تلوار ہے۔ جس کو دونوں طریقوں سے استعمال کرسکتے ہیں ۔ اگر اس سے خیر پھیلانے کا او رنیکی کا کام لیتے ہیں تو یہ بہترین چیز ہے۔ اور اگر اس سے بُرائی کا کام لیں تو بدترین چیز ہے۔ یہ تو ہے اصول کی بات۔ جہاں تک ہمارے ملک میں ٹی وی کا معاملہ ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اُس میں اکثر پروگرام ایسے ہیں جن کو دیکھ کر ہی شرم آتی ہے۔ بےپردگی، مخلوط محفلیں ، لڑکیوں کا لڑکوں سے عشق کرنا تو ان چیزوں سے بچوں کی تربیت پر اثر پڑتا ہے۔ ہاں جو اچھے پروگرام ہیں محفل نعت، محفل قرأت، ایسے پروگرام جو بچے کے ا خلاق او رکردار کو فائدہ دے سکتے ہیں اُن کو استعمال کیجئے لیکن جب بُرائی نظر آرہی ہو اس کو استعمال نہ کریں ۔
ٹی وی کی سب سے بڑی بُرائی یہ ہے کہ اس نے Status of life کو خدا بنا دیا ہے۔ وہ بہترین گھر، بہترین لباس، بہترین کھانا، عیش و عشرت یہ سب دکھا رہے ہوتے ہیں اور پھر بچہ اسے ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے۔ ٹی وی کے آنے سے پہلے بھی لوگ امیر ہوتے تھے، مڈل کلاس بھی، غریب بھی۔ امیرکی امارت اس کے گھر میں ہوتی تھی اور غریب کو شرمندگی نہیں ہوتی تھی۔ آج کل ٹی وی نے ایک پورا Life Style دے دیا ہے۔ اشتہارات نے لوگوں کو پاگل کردیا ہے اگر کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے توبھی ہر کوئی لینے پر تُلا ہوا ہے اس طرح حرام کمائیاں ، بلا ضرورت خریداری، بے پردگی، بے حیائی، فحاشی وجود میں آتی ہے۔ اس سے بچوں کو بچائیں ۔ کارٹون بھی اگر دکھا رہے ہیں تو اس میں بھی یہ سب کچھ موجود ہے۔ وہ جو شریعت کے احکامات تھے کہ مرد اور عورت اپنی نظریں نیچی کریں ، عورتیں اپنی زینت
|