اس کی اسناد میں حنش بن قیس ہے اور وہ ضعیف ہے اور انہی دلائل میں سے ترمذی کا قول سنن کے اخیر کتاب العلل میں ہے آلخ یعنی اس کتاب کی تمام روایات دو کے علاوہ معمول بہا ہیں۔ پھر شوکانی نے کہا کہ: تجھ پر مخفی نہ رہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ اور جمہور کے اس پر عمل نہ کرنے سے اس کی صحت میں تو کوئی نقصان نہیں مگر اس سے استدلال قائم نہیں ہو سکتا۔ اور بعض علماء نے اس پر عمل کیا ہے جو ذکر ہو چکا ہے اگرچہ ترمذی کے کلام سے یہ ظاہر ہے کہ: اس پر کسی نے عمل نہیں کیا لیکن دوسروں کی کلام سے بعض اہل علم کا عمل کرنا ثابت ہوتا ہے، مثبت نافی پر مقدم ہوتا ہے۔
سو اولی یہ ہے کہ اعتماد اس پر کیا جائے جس کو ہم نے پہلے ذکر کیا، یعنی جمع سے مراد جمع صوری ہے بلکہ اسی کا قائل ہونا لازمی ہے جیسا کہ ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں۔ اور ہم نے اس سے متعلق ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس کا نام " تشنيف السمع بابطال أدلة الجمع " رکھا جو اس پر واقف ہونا چاہیے، اس کی طرف رجوع کرے۔
اور علامہ ابوالبرکات مجد الدین ابن تیمیہ حرانی رحمۃ اللہ علیہ نے المنتقيٰ ([1]) میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ کی حدیث کے بعد کہا:
میں کہتا ہوں: اس حدیث کے مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بارش، خوف اور مرض کے لئے جمع جائز ہے اور اس حدیث کے ظاہر منطوق پر باقی رہے گا اور مستحاضہ کے لئے جمع کے جائز ہونے میں صحیح حدیث وارد ہوئی ہے جبکہ مستحاضہ بھی ایک قسم کا مرض ہے۔ موطا میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے نافع سے روایت کیا کہ جب امیر بارش کی وجہ سے مغرب اور عشاء کو جمع کرتے تو ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ جمع کر لیتے۔ اور اثرم نے اپنی سنن میں ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت کیا کہ: یہ سنت سے ہے کہ بارش
|