ولد الزنا کی امامت کیسی ہے؟
اور اگر وہ قرآن پڑھا ہوا ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنی بلا کراہت درست ہے اور اگر وہ " اقرا " (یعنی زیادہ پڑھا ہوا) ہو تو اس کے پیچھے پڑھنا اولیٰ و نسب ہے۔ بحکم حدیث: يَؤُمُّكُمْ أَقْرَؤُكُمْ لِكِتَابِ اللهِ (فتح الباری 2؍184، مسلم 1؍465)
تمہاری امامت وہ کرائے جو تم میں سے قرآن کریم کو سب سے زیادہ پڑھنے والا ہو۔ (بخاری و مسلم)
اس کی امامت کے ناجائز ہونے یا کراہت کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، جو لوگ مکروہ کہتے ہیں ان کی یہ بات بلا دلیل ہے جیسا کہ تفصیل آئندہ آئے گی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک:
چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ولد الزنا کی امامت کی صحت سے متعلق باب قائم کیا ہے۔ صاحب فتح الباری رحمۃ اللہ علیہ نے جمہور کا درج ذیل مذہب نقل کیا ہے کہ ولد الزنا کی امامت صحیح ہے:
وَإِلَى صِحَّةِ إِمَامَةِ وَلَدِ الزِّنَا ذَهَبَ الْجُمْهُورُ أَيْضًا وَكَانَ مَالِكٌ يَكْرَهُ أَنْ يُتَّخَذَ إِمَامًا رَاتِبًا وَعِلَّتُهُ عِنْدَهُ أَنَّهُ يصير مُعَرَّضًا لِكَلَامِ النَّاسِ فَيَأْثَمُونَ بِسَبَبِهِ، وَقِيلَ لِأَنَّهُ لَيْسَ فِي الْغَالِبِ مَنْ يَفْقَهُهُ فَيَغْلِبُ عَلَيْهِ الْجَهْلُ (فتح الباری 2؍185)
’’جمہور کے نزدیک ولد الزنا کی امامت درست ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ زانی کی امامت کو مکروہ جانتے تھے اس لئے کہ وہ لوگوں کی گفتگو کا نشانہ بنے گا سو بایں سبب وہ گناہ گار ہوں گے اور کہا گیا ہے کہ غالب خیال ہے کہ اسے کوئی سنبھالنے والا نہ ہو تو اس پر جہالت کا غلبہ ہو گا۔‘‘
اس کی امامت کو مکروہ کہنے والے اور ان پر رد:
اب جو لوگ مکروہ کہتے ہیں ان کی دلیل، سنی حنفی مذہب میں یہ ہے کہ جب
|