جمع بین الصلوٰتین والی حدیث کی اسنادی حیثیت:
مذکورہ بالا حدیث کی سند میں عبدالقدوس کا بیٹا ضعیف ہے لیکن اس کا ضعف اس وجہ سے مدفوع ہے کہ اس میں کلام اس سبب سے ہے کہ وہ ضعفاء سے روایت کرتا ہے، اور دوسرا اس وجہ سے کہ وہ شیعہ ہے۔ پہلے سبب کا کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اس حدیث کو ضعیف سے روایت نہیں کیا بلکہ اعمش سے روایت کیا ہے، جیسا کہ ہیثمی نے کہا، اور دوسری وجہ کا بھی کچھ اندیشہ نہیں ہے جب تک حد معتبر سے تجاوز نہ کرے اور یہ بات اس سے منقول نہیں۔ حالانکہ بخاری نے اس کے حق میں کہا کہ وہ بڑا سچا ہے اور ابن ابی حاتم نے کہا اس کا کوئی ڈر نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ جب یہ حدیث صحیح مسلم اور ابن ماجہ وغیرہما میں مروی ہے تو اس کی صحت میں کلام نہیں۔ اور جو لوگ اس حدیث کی دلیل سے مطلقا جمع کے جواز کے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں جمع اس شرط سے جائز ہے کہ، عادت نہ ڈالے۔ فتح الباری میں ہے: اس کے قائلین میں سے ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ، ربیعہ رحمۃ اللہ علیہ، ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ اور قفال کبیر رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور خطابی نے اہل حدیث کی ایک جماعت سے اس کو نقل کیا ہے۔ اور جمہور کہتے ہیں کہ جمع بلا عذر جائز نہیں، اور بحر میں بعض اہل علم سے بیان کیا ہے کہ، یہ اجماع ہے۔
حدیث جمع کی توجیہات:
اور اس حدیث جمع کے کئی جواب دئیے ہیں:
اول: کہ یہ جمع مرض کے سبب سے تھی اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو قوی کہا۔ اور حافظ (ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا، کہ اس میں نظر ہے۔ اس لئے کہ یہ اگر مرض سے ہوتی تو چاہئے تھا کہ اس نماز میں مریض کے سوا کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہ ہوتا، اور ظاہر یہ ہے کہ یہ اصحاب کے ساتھ تھا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں اس کی تصریح کی ہے۔
دوم: کہ یہ جمع کرنا ابر میں تھا، جب ظہر ادا کر چکے تو ابر کھل گیا۔ سو معلوم ہوا کہ عصر
|