اور برسوں سے چاند کی منزلوں کے حساب سے اوقات مقرر کرنا بدعت ہے اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے، انتہی۔
ستاروں کی پیدائش کا مقصد:
قرآن کریم اور صحیح بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ ستارے صرف تین چیزوں کے لئے ہیں:
1۔ آسمان دنیا کی زینت کے لئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ ... ﴾ الآية (سورة الملك: 5)
’’بےشک ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (ستاروں) سے آراستہ کیا۔‘‘
2۔ ان شیاطین کے مارنے کے لئے جو مستقبل کے واقعات سننے کے لئے آسمان کے قریب جاتے ہیں چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ ... ﴾ الآية (سورة الملك: 5)
’’ اور انہیں شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بنایا۔‘‘
3۔ خشکی اور دریا میں راستہ پانے کے لئے، جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ ﴿١٦﴾ ۔۔۔ (سورة النحل: 16)
’’اور بہت سی نشانیاں مقرر فرمائیں اور ستاروں سے بھی لوگ راہ حاصل کرتے ہیں۔‘‘
اور جو ان فوائد کے سوا اور فوائد تلاش کرے وہ حلاوتِ ایمان سے محروم ہے۔
حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا جس نے ستاروں میں ان کے سوا اور فائدے سوچے تو اس نے اپنے حصے کو بھلا دیا اور اپنا نصیب برباد کیا اور اس چیز کے پیچھے پڑا جو اس کو درکار نہیں اور جس کا اس کو علم نہیں اور جس کو جاننے سے پیغمبر اور فرشتے عاجز ہیں۔ حضرت ربیع رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اسی کی مثل مروی ہے، اتنا اضافہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کی موت
|