’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فجر کی سنتیں چھوٹ گئیں تو انہوں نے انہیں طلوع آفتاب کے بعد ادا کیا۔ (مؤطا)
اس طرح ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قوم کے پاس اس وقت آئے جبکہ وہ نماز (باجماعت) پڑھ رہے تھے تو ان کے ساتھ مل گئے اور دو رکعتیں سنت نہ پڑھی، پھر اپنی جائے نماز پر ہی بیٹھے رہے تاآنکہ چاشت کا وقت ہو گیا، سو اٹھے اور ان کو ادا کیا۔ مزید عطیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا انہوں نے ان (فوت شدہ سنتوں کو) امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کیا۔ (محلی)
اور ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا نقل کیا ہے کہ سنت کی قضا طلوع آفتاب کے بعد بھی ثابت ہے کہ
مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ ، قال الترمذي: وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. (ترمذی 1؍287، ابن ماجہ البانی 1؍190)
’’جس شخص نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں تو ان کو طلوع آفتاب کے بعد پڑھ لے۔ ترمذی نے کہا اسی پر اہل علم کا عمل ہے، اور یہی قول سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ، ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔‘‘
سنتوں کی ادائیگی فرضوں کے بعد:
ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ سے فرضوں کے بعد طلوع آفتاب سے قبل پڑھنا ثابت ہے کہ: حضرت قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جماعت کی اقامت کے وقت نماز میں شامل ہوئے اور فرضوں کی ادائیگی کے بعد جلدی سے فجر کی سنتیں پڑھنے لگے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت سے فارغ ہوئے اور
|