استحقاق دوسرے سے زیادہ نہیں بلکہ سب برابر ہیں۔
(قال الله تعاليٰ:﴿ وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ﴿١٨﴾ (سورۃ الجن: 18))
’’ اور بےشک مسجدیں اللہ ہی کے لئے خاص ہیں سو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔‘‘
اور فرمان الٰہی ہے:
﴿ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٢٥﴾ (سورۃ الحج: 25))
’’مساوی ہے وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے، جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں کا ارادہ کر لے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔‘‘
پہلے سے بیٹھنے والے کو اٹھانا ناجائز ہے:
سو جو کوئی شخص پہلے پہل آیا اور اپنے بیٹھنے کی مقدار جتنی جگہ پر بیٹھ گیا اسی کا وہ مستحق ٹھہرے گا اس کو وہاں سے اٹھانا کسی کے لئے درست نہیں اور اگر وہ زیادہ جگہ روکے گا تو دوسرا آنے والا اس جگہ پر بیٹھ سکتا ہے کیونکہ جگہ کا مخصوص کرنا اس کے لئے جائز نہیں، اور وہ بعد میں آنے والے کا استحقاق ہے، چنانچہ بخاری و مسلم کی حدیث اس کے لئے ناطق ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(لَا يُقِيمَنَّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ لْيُخَالِفْ إِلَى مَقْعَدِهِ، فَيَقْعُدَ فِيهِ وَلَكِنْ يَقُولُ افْسَحُوا) (متفق علیہ، مسلم 4؍1715، مصابیح السنہ 1؍472)
’’جمعہ کے دن تم سے کوئی اپنے بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر قبضہ کر کے بیٹھنے کی کوشش نہ کرے، بلکہ لوگوں سے کہے، کھلے ہو جاؤ۔‘‘
پس ابتدائے حدیث کے منطوق سے سابق کا استحقاق اور اس کے اٹھانے کی
|