حرمت ثابت فرمائی اور آخرِ حدیث سے سابق کو زیادہ جگہ لینے کی ممانعت اور بقیہ کا بعد میں آنے والے کو مستحق قرار دیا کیونکہ اگر زائد جگہ کا کوئی مستحق نہ ہوتا تو کلمہ " تفسحوا " کہہ کر اپنی جگہ اس سے کس طرح نکال سکتا ہے جبکہ وہ پہلے سے آیا ہوا تھا۔ سو ظاہر ہوا کہ اگر جگہ کہیں زائد ہو تو موجود شخص اس پر بیٹھ سکتا ہے کیونکہ وہی اس کا مستحق ہے۔
اور اس قوی دلیل کے علاوہ امر مسئولہ میں مزید دلیلِ محکم یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ جب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں منیٰ میں خاص آپ کے لئے مکان بنانے کی عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " لا ، منًى مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ " یعنی میرے لئے مکان مت بتاؤ کہ منیٰ ہر سابق کے لئے قیام گاہ ہے اور مکان بنانے کے صورت میں’’بانی‘‘ کی تخصیص ہو جاتی ہے، اور محل کا حصر قبل از حضورِ حاضر لازم آتا ہے اور منیٰ اس حکم مساوات تصرف عامہ میں مسجد کی مانند ہے۔ كما لا يخفي علي الماهر الفطين۔
خلاصہ کلام:
تو ظاہر ہوا کہ ایسے مقامات میں کسی کو پہلے سے جگہ روکنا روا نہیں، جو شخص آتا جائے اپنی جگہ لیتا جائے نہ کہ اپنے اقارب و احباب کے لئے مقام مخصوص کر لے اور کپڑے ڈال کر روک رکھے، کیونکہ یہ فعل ایک قسم کا ظلم ہے۔ دیکھئے! خود حضرت فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی ذات پاک کے لئے اس کو پسند نہیں فرمایا تو پھر اور کسی کی تو حقیقت ہی کیا ہے۔ نیز ایسے خاص مقاماتِ مطہرہ میں آپس میں مار پیٹ اور خون خرابہ کرنا سراسر نفس و شیطان کی پیروی ہے اور اس کی حرمت و شناعت صاف ظاہر ہے۔ نعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سيئات اعمالنا۔
اور مسئلہ ثانی کا جواب یہ ہے کہ جو شخص پہلے سے آ کر پھر ضرورت کے لئے اپنا کپڑا رکھ کر چلا جائے۔ سو اگر یہ شخص قریب ہی حوائج ضروریہ کے لئے مثل وضوء و استنجاء کے گیا ہے تو یہ اس جگہ کا پہلے مستحق ہو چکا تھا۔ اب بھی وہی شخص زیادہ حق دار ہے بدلیل محکم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
|