إِذَا قَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسٍ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ ۔ (رواه ابوداؤد في سننه ([1]))
’’جب کوئی شخص مجلس سے اٹھے پھر وہیں لوٹ آئے تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘
ہاں! اگر وہ بھی جگہ کو روک کر اپنے کاروبار اور دنیاوی لین دین کے لئے چل دیا تو اب وہ مستحق نہیں رہا، بلکہ دوسرے غیر حاضرین کی مثل ہے، چنانچہ ’’حدیث منیٰ‘‘ صراحت کرتی ہے جس کے بعد اخفاء نہیں ہے کہ جب ایسے امور منکرہ، شنیعہ و قبیحہ مساجد میں سرزد ہوتے ہوں اور متولی مسجد یا امام و مہتمم جو ایسے امور کو روکنے اور رد کرنے پر قادر ہیں اور عمدا ان کا ازالہ و رد نہ کریں تو وہ گنہگار اور ماخوذ ہوں گے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
(مَا مِنْ رَجُلٍ يَكُونُ فِي قَوْمٍ يَعْمَلُ فِيهُمْ بِالْمَعَاصِي يَقَدْرُونَ عَلَى أَنْ يُغَيِّرُوا عَلَيْهِ وَلا يغيرون إِلا أَصَابَهُمُ الِلَّهِ بِعِقَابٍ قَبْلُ أَنْ يَمُوتُوا) ([2])
’’ کوئی شخص کسی قوم میں رہ کر گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو اور قوم کے لوگ اس کو تبدیل کرنے پر قادر بھی ہوں اور وہ ایسا نہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو مرنے سے پہلے عذاب میں مبتلا کر دے گا۔‘‘
سو ہر قادر شخص پر اس قسم کے فساد کا ازالہ و اصلاح واجب و لازم ہے۔ والله اعلم وعلمه اتم۔
اسمائے گرامی و مؤیدین علماء کرام:
٭ الجواب حسن، فقیر محمد مسعود نقشبندی امام مسجد فتح پوری
٭ جواب ھذا صحیح ہے۔ حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ دہلوی
|