دوم: کہ اگر یہ ہوا کہ فساد سے ہوتا تو چاہیے تھا کہ عموما آدمیوں اور حیوانات میں بھی پڑتا، حالانکہ بہت سے حیوانات و انسان ایسے ہیں کہ طاعون اور وبا ان کو پہنچتی ہے اور پھر وہ بچ جاتے ہیں، اور دوسرے اشخاص و حیوانات جو مزاج میں ان کے مشابہ ہوتے ہیں ان کو سرے سے اثر پہنچتا ہی نہیں۔
سوئم: کہ یہ ہوا کے فساد سے ہوتا تو چاہیے تھا کہ، سب اعضاء اور تمام بدن میں ہوا کرتی، کیونکہ ہوا تمام بدن کو لگتی ہے، حالانکہ یہ غالبا بدن کے ایک جرو خاص میں پیدا ہوا کرتا ہے اور دوسرے عضو تک تجاوز نہیں کرتا۔
چہارم: یہ کہ جو مرض اسباب طبیعہ سے پیدا ہوتے ہیں تو طبعی دواؤں میں سے ان کے لئے کوئی دوا بھی ہوتی ہے بخلاف طاعون و وباء کے، کہ اطباء اس کے علاج سے عاجز ہیں حتی کہ بڑے حاذق طبیب یہ اقرار کر چکے ہیں کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں، نہ ہٹانے والا اور نہ ہی روکنے والا ہو، سوا اس خالقِ (حقیقی) سے جس کی بڑی حکمت ہے اور اس کو دور کرنا جانتا ہے۔
امام حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا اطباء پر رد:
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں رقمطراز ہیں کہ:
اطباء کو اپنے اس قول کے موجب جو انہوں نے کہا یہ ہے کہ: اس امر کی دریافت کہ طاعون جنوں کا نیزہ مارنے سے ہے، شارع علیہ السلام کی خبر کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتا اور عقل کو اس میں کوئی دخل نہیں اور جب ان کے پاس اس باب میں شارع علیہ السلام کا بتایا ہوا علم نہیں تھا تو انہوں نے یہ سمجھا کہ قریب تر یوں ہے کہ کہا جائے کہ، طاعون جو ہر ہوا کے فساد سے ہوتا ہے سو شرع وارد ہو گئی اور اللہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی قطعی علم حاصل ہو گیا تو عقل کی تجویزِ تخمین باطل ہو گئی۔ (فتح الباری 10؍181)
|