آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ جات میں اختیار ہے:
دوسری شق ساقط ہے، مگر یہ کہ تغیرِ فتویٰ سے مراد، قضا میں باعتبار احوال و زمان کے تغیر ہو۔ چنانچہ تفھیمات میں کہا کہ ’’مجھے یہ بات معلوم کرائی گئی کہ شریعت میں رائے دینا تحریف اور قضا میں عمدہ ہے۔‘‘ انتہی
اور اس میں شک نہیں کہ اگر اس باب میں نص صریح موجود نہیں تو جھگڑوں کے فیصلہ کرنے میں قضا، قاضی کی رائے پر ہے۔ حجۃ اللہ البالغۃ ([1]) میں مصالح اور شرائع کے مابین فرق کے بیان میں ایک مستقل باب باندھا اور اس کی مثالیں ذکر کی گئی ہیں، اس مقام کی تفصیل وہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ اور امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا امت کے بعض امور میں دخل دینا اپنی طرف سے حکم معین کرنے کے لئے نہ تھا بلکہ مشورہ کے طور پر تھا اور وہ بھی نزول وحی اور صدورِ حکم نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے تھا۔ چنانچہ موافقات عمر رضی اللہ عنہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں سو جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدوینِ نصوص اور صحت کے بعد، معارضۂ نسخ کے بغیر اس کی مخالفت میں مصلحت دیکھے اور ان کے برخلاف حکم کرے وہ کھلا منافق ہے۔ ہاں! البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشاد جو طریق مشورہ اور مصلحت کے تھے ان میں اتباع کرنا واجب نہیں۔ اسی لئے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مخالفت کرنے والے پر انکار نہیں کیا جیسا کہ بریرۃ رضی اللہ عنہا کے قصہ میں ہے کہ جب اس نے اپنے شوہر مغیث کو آزاد کے بعد ترک کر دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش اور مصلحت کے طور پر اس سے کہا: وہ تیرے بیٹے کا باپ ہے۔ تو بریرۃ نے جوابا کہا کہ، اگر آپ امر و حکم کے طور پر فرماتے تو مجھے کوئی عذر نہیں ورنہ میں اسے نہیں چاہتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! میں سفارش کے طور پر کہتا ہوں اور احادیث کے تتبع کرنے والے پر اس قصہ کی نظریں مخفی نہیں۔
نیز امت کے سلف اور ائمہ سے اس قسم کی مصلحت بینی، احوال، زمان و مکان
|