Maktaba Wahhabi

350 - 386
باری تعالیٰ ہے " مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ " (سورۃ النساء: 11) یعنی وصیت کے بعد جو ہو چکی ہے یا قرض کے۔ یہ میراث کے باب میں ہے جیسا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اور بہتر یہ ہے کہ اپنے عموم پر رہے۔ وصیت میں ضرر کی شکلیں: اور ابن عادل کی تفسیر میں ہے کہ، وصیت میں ضرر پہنچانا کئی طرح سے ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ: ثلث سے زیادہ کی وصیت کر کے فوت ہو جائے۔ بالکل مال یا بعض مال کا کسی اجنبی کے لئے اقرار کر جائے یا ورثاء کو میراث سے محروم کرنے کے لئے کسی بے بنیاد قرضہ کا اپنے ذمہ اقرار کر کے یا جو قرض کسی سے لینا تھا اس کا اقرار کر لے کہ میں لے چکا ہوں یا کوئی چیز سستی بیچے یا مہنگی خرید لے۔ یہ سب کچھ اس غرض سے کرے کہ وارثوں کو مال نہ پہنچے یا ثلث مال کی وصیت ثواب کی غرض سے نہیں بلکہ ورثہ کم کرنے کی نیت سے۔ یہ تمام باتیں وصیت میں نقصان پہنچانے کی صورتیں ہیں، انتہی۔ میں کہتا ہوں کہ: آیت کریمہ اپنے ماسوا سے مستغنی کرتی ہے کیونکہ اس میں عدم اضرار کے ساتھ جائز وصیت کی قید ہے اور اولاد میں بخشش اور عطا برابر کرنے کے دلائل اس کی تائید کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے برابر نہ کرنے کو جور (ظلم) فرمایا اور کہا " لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ " ’’ یعنی میں بے انصافی کا گواہ نہیں بنتا۔‘‘ واللہ اعلم
Flag Counter