ذیل میں امر کی تفسیر وحی کے ساتھ کر کے لکھی ہے وہ عبارت یہ ہے: " يَنْزِل بِهِ جِبْرِيل مِنْ السَّمَاء السَّابِعَة إلَى الْأَرْض السَّابِعَة " ([1]) یعنی جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر ساتویں آسمان سے ساتویں زمین تک اترتے ہیں۔ اور کہتا ہے کہ: اصول فقہ کے اس قاعدے کہ ’’خبر آحاد سے آیت کی تخصیص جائز ہے ‘‘یہ آیت " وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ " کی مخصص ہے یہ مسئلہ کس طرح سے ہے بیان فرمائیں؟
جواب:
زمین کے سات طبقات کی دلیل:
زمین کا آسمانوں کی طرح سات طبقے ہونا آیت مذکورہ سے بلاشبہ ثابت ہے، اور مکمل آیت قرآن مجید کے اٹھائیسویں پارے کی سورہ طلاق میں اس طرح ہے:
﴿ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّـهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴿١٢﴾ (سورة الطلاق: 12)
’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اس کے مثل زمین بھی۔ اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو باعتبارِ علم گھیر رکھا ہے۔‘‘
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع حدیث جو بخاری میں ہے:
" مَنْ ظَلَمَ قَيْد شِبْرٍ مِنَ الْأَرْضِ طُوِّقَه يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ " ([2])
’’جو کوئی کسی کی زمین سے بالشت بھر ظلم سے لے گا ساتوں زمینوں میں سے اتنی زمین اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دی جائے گی۔‘‘
اور سالم کی حدیث اپنے باپ سے مروی ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|