" مَنْ أَخَذَ مِنْ الْأَرْضِ شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ خُسِفَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى سَبْعِ أَرَضِينَ " ([1])
’’جو شخص زمین سے کچھ ناحق حاصل کر لے تو قیامت کے دن اس کو ساتوں زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔‘‘
یہ دونوں حدیثیں بھی زمین کے سات طبقات ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
طبقات ارض کی کیفیت:
امام شوکانی نے تفسیر ([2]) آیت مذکورہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ: اس آیت میں اس بات کی تصریح ہے کہ آسمان سات ہیں لیکن زمین کی تعداد میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے " وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ " تو بعض نے کہا " مِثْلَهُنَّ " سے مراد تعداد میں آسمان کی مانند ہونا ہے۔ اور بعض نے کہا: موٹائی زمین، آسمان کی مثل ہونا مراد ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ زمینیں بھی آسمان کی طرح سات ہیں۔ اور یہ مضمون صحیح حدیث سے ثابت ہو چکا ہے۔ امام رازی کہتے ہیں: حق یہ ہے کہ عدد مخصوص کا ذکر کرنا زائد پر دلالت نہیں کرتا۔ ([3])
اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جسے حکماء نے ذکر کیا ہے کہ زمینیں سات سے زیادہ ہیں اور ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول سے ہمارےاس سات کے عدد کے سوا کچھ ثابت نہیں سو ہم اسی پر اقتصاد کرتے ہیں اور اضافے کو اس وقت تک نہیں مانتے جب تک شرع کے طریق سے ثابت نہ ہو اور شرع میں زائد کا کچھ ذکر نہیں، کلام الشوکانی، اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے۔
ضحاک اور بعض متکلمین نے کہا کہ: یہ سات طبقے آپس میں ملے ہوئے ہیں ان میں فاصلہ نہیں ہے اور ساتوں زمینیں تو بر تو ہیں۔ اور بعض نے سات زمینوں کی تاویل سات ولائتوں اور سات سیاروں وغیرہ سے کی۔ چنانچہ فتح الباری میں ابن تین سے نقل کیا۔ ([4]) اور قسطلانی اور کمالین میں انہی اقوال کو ذکر کیا ہے۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ
|