نیچے ہونا مراد ہے۔
اس لئے متقدمین اور متاخرین میں سے کسی نے آیت مذکورہ کی یہ تفسیر نہیں کی۔ بجز ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جس کی سند اور متن کا حال اوپر معلوم ہو چکا ہے اور اثر کی کیا حقیقت ہے کہ اس سے ایسے حکم اخذ کئے جائیں۔ ایسے مقام میں تو پیغمبر معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث درکار ہے نہ کہ اثر موقوف جس کا اعتبار نہ ہو۔
خبرِ آحاد سے آیت کی تخصیص کا مفہوم:
اور جو سوال میں مذکور ہے کہ آیت کی تخصیص خبر آحاد سے جائز ہے اس کا جواب یہ ہے کہ: خبر احاد سے مراد جو آیت کی مخصص ہو سکتی ہے وہ مرفوع صحیح حدیث ہے نہ کہ اثر موقوف ضعیف، اسی لئے اصول فقہ کی کتابوں میں خبر احاد کی بحث کو، احتجاج بہ سنت کی قسم میں جو کتاب کے مقابل ہے، ذکر کرتے ہیں اور اس کی مثال میں صحیحین کی احادیث کا پتہ دیتے ہیں اور اس اثر کا سنن کی کسی کتاب میں نشان تک نہیں، چہ جائیکہ صحیحین میں ہوں۔ اور بالفرض اگر تسلیم کر بھی لیا جائے تو تب بھی اس اثر میں اور آیت ﴿ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۔۔۔﴾ ( الاحزاب: 33)" میں کوئی اختلاف نہیں، تاکہ اسے اس کا مخصص مان لیا جائے۔ اسی لئے کہ زمین کے اوپر کے طبقہ کے رسولوں کا ثبوت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین صلي الله عليهم وآلهم واصحابهم اجمعين تک جمہور اہل علم بلکہ سب اہل اسلام کے نزدیک متفق علیہ ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طبقہ کے سب رسولوں کا خاتم ہونا نص مذکور کے حکم سے ثابت ہے چنانچہ جمع کا صیغہ یعنی " نَّبِيِّينَ " اور اس پر الف لام استغراق کا داخل ہونا اس معنی کا فائدہ پہنچاتا ہے، اور دوسرے آدموں اور خاتموں کا وجود ثابت نہیں۔ اور نص مذکور کے مدلول پر سب مجتہدین کا بلکہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے پس آدموں اور خاتموں کا زمین کے باقی طبقوں میں ثابت کرنا شرح کا حکم نہیں اور اس قول پر کوئی علمی دلیل موجود نہیں ہے۔
اور اہل اصول میں سے کوئی اس بات کا قائل نہیں کہ نصوص کی تخصیص آثارِ
|