" خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ" کا مفہوم
سوال:
حدیث " خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ " کا کیا معنی ہے؟
جواب:
یہ حدیث بروایت حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بخاری کےكتاب الاستئذان باب بدء السلام اور مشکاۃ میں کتاب الادب، باب السلام میں ہے۔ صحیحین میں ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے:
خَلقَ اللهُ آدَم علَى صُورتهِ، طولُهُ سِتُّون ذِراعًا ([1])
یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ان کا قد ساٹھ گز تھا۔ اور اس حدیث کی مراد کی تعیین میں کئی اقوال ہیں۔
اول:
یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کو آدم کی صورت پر پیدا کیا پہلے ہی ساٹھ گز کے قد سے نہ کر دوسروں کی طرح کئی اطوار میں، کہ پہلے صبی ہوتا ہے پھر طفل پھر مرد بن جاتا ہے۔ اور اس قول پر دہریہ کا مذہب باطل ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ انسان کا ہمیشہ دوسرے انسانوں کے نطفہ ہی سے پیدا ہوتا چلا آیا ہے۔
دوسرا:
یہ کہ ضمیر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور ’’صورت‘‘ صفت کے معنی میں ہے، یعنی انسان سننے والا، دیکھنے والا، بولنے والا، جاننے والا پیدا کیا، اور اپنا مظہر بنایا۔
|