ساتوں طبقے جدا جدا ہیں اور ہر زمین میں اتنی اتنی مسافت ہے جتنی زمین اور آسمان میں ہے۔ چنانچہ امام احمد، ترمذی اور نسائی کی روایات اس پر دلالت کرتی ہیں اور تاویلات مذکورہ کا قول قرآن و حدیث سے مردود ہے۔ ([1]) جیسے ابن تین اور قرطبی وغیرہ ائمہ نے کہا ہے۔
زمین کے طبقات میں نوع بشر اور انبیاء کا عدم وجود:
لیکن آیت اور احادیث مذکورہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ زمین کے طبقات میں سے ہر طبقہ میں نوع بشر اور ان کے انبیاء موجود ہیں۔ بلکہ قرآن مجید اور حدیث شریف میں جو کہ مدارِ اثبات و نفی، رد و قبول اور ہر چیز سے متعلق عقیدہ و عمل وغیرہ، اور انہیں میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش جن کی ہم اولاد ہیں ان کے بہشت میں داخل کرنے زمین پر بھیجنے اور فرشتوں کا ان سے سجدہ کروانے کا واقعہ مذکور ہے، اور دوسرے آدموں، ان کی ذریت، باقی طبقات کے پیغمبروں اور ان کی امتوں کے حالات و قصے مذکورہ نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ دوسرے نوع انسان، ان کے آدموں اور خواتم النبیین کی بو تک قرآن و حدیث کی دلالۃ النص تو کیا بلکہ اشارۃ النص سے بھی نہیں پائی جاتی۔ اور حدیث کی تمام کتب، صحاح، سنن، معاجم اور مسانید وغیرہ، ان عالموں اور آدموں کے بیان سے خالی ہیں۔ کوئی ضعیف حدیث بلکہ موضوع بھی اس باب میں اس تفصیل سے جو سوال میں گزری ہے اسلام کی معتبر کتب میں نہیں پائی جاتی، مرفوع حدیث کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
اگرچہ بمضمون کی آیت "﴿ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۔۔۔﴾ (سورة المدثر: 31)" اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس مخلوقات موجودہ محسوسہ میں عالم کا حصر نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ بموجب فرمان واجب الاذعان ﴿ أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ
|