Maktaba Wahhabi

211 - 386
الاسم کتاب کے حوالہ سے یہ بتاتے ہیں کہ شہید اور ولی کا ایک ہی حکم ہے۔ سو ان کا یہ اجتہاد امام صاحب کے اجتہاد کو رد کرتا ہے۔ اس لئے میں امام رحمہ اللہ کی طرف سے ایک ایسا جواب دیتا ہوں جس کا کوئی مقابل نہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ ۔۔۔ شہادت ایک اعلیٰ منصب اور مرتبہ ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں بہت بڑے انعامِ اخروی کا وعدہ دیا گیا ہے اور اس کے احکام قرآن، حدیث اور فقہ میں مذکورہ ہیں اور ’’ولایت‘‘ یعنی ولی ہونا کوئی منصب و مرتبہ شرعی نہیں، بلکہ خیال پختہ کرنے کے مراتب میں سے صوفیہ کرام کی اصطلاح میں ایک مرتبہ کا نام ’’ولایت ‘‘ہے۔ جس نے اس مرتبہ تک خیال پکا کر لیا اس کا نام ’’ولی‘‘ ہے، مگر یہ اصطلاح ہمارے زیر بحث مسئلہ سے خارج ہے، نہ کلام اللہ، نہ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کے لئے کوئی انعام اخروی کا وعدہ ہے اور نہ ہی قرآن و حدیث اور فقہ میں اس کے کوئی احکام مذکور ہیں۔ منیہ، کنز قدوری، شرح وقایہ اور ہدایہ کھول کر دیکھیں کہیں کوئی ولایت کا مسئلہ بیان نہیں کیا گیا پھر دونوں کا ایک حکم کیسے ہو سکتا ہے، کس مجتہد کا یہ قیاس ہے؟ شہداء کی زندگی کیسی ہے؟ جہاں شہیدوں کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے وہیں ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے: " وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ " یعنی تم ان کی زندگی کو نہیں جانتے۔ اور دوسری جگہ فرمایا " عِندَ رَبِّهِمْ " یعنی اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں نہ کہ تمہارے پاس۔ تم اپنے ہاتھ سے شہیدوں کو دفن کرتے ہو، اس کا ترکہ وارثوں میں تقسیم کرتے ہو، اس کی عدت پر عدتِ وفات کا حکم لگاتے ہو، عدت کے بعد نکاح ثانی کے جواز کا فتویٰ دیتے ہو، کیا یہ احکام زندوں پر بھی جاری ہو سکتے ہیں؟ یا رب العالمین، ان لوگوں کے دلوں میں تیری عظمت بیٹھ جائے جو تیری پاک کتاب کے معانی خراب کرنے سے ان کو مانع ہو۔ آمین یا رب العالمین
Flag Counter