کر کہا کہ ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: بعض لوگ آگ میں سے نکلیں گے اور ہم یہ نہیں کہتے جیسا کہ اهل حروراء (ایک موضع کا نام ہے جہاں سے خارجی " خذلهم الله " پیدا ہوئے) کہتے ہیں کہ جو شخص آگ میں داخل ہوا وہ ہمیشہ اس میں رہے گا۔
اور ابن ابی حاتم نے آیت " مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ " کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ: ہر جنت کے لئے آسمان اور زمین ہے۔
اور یہ روایات نصوص میں محل نزاع ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ: آسمان و زمین کے دوام سے مراد، آخرت کے آسمان و زمین کی ہمیشگی مراد ہے جسے فنا نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان " الَّذِينَ شَقُوا " گنہگار مومنوں اور کافروں دونوں کو شامل ہے۔ اور کلمہ "ما" (إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ) میں "من" کے معنی میں ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ اہل توحید شافعین کی شفاعت اور اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بدولت آگ سے رہائی پائیں گے۔ چنانچہ صحیح متواتر دلائل جن سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے اس پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ ہر عموم (جیسا کہ "﴿ لَّابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا ﴿٢٣﴾" یعنی اس میں صدیوں رہنے والے ہیں) کے لئے مخصص ہیں۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر کبیر 8؍435 میں رقمطراز ہیں:
ایک گروہ نے اس سے عذاب کے متناہی اور منقطع ہونے پر دلیل لی ہے اس لئے کہ گناہ، ظلم متناہی ہے اور اس پر عذاب لامتناہی کرنا ظلم ہے اور اللہ تعالیٰ ظلم سے مبرا ہے۔ انتہی۔ ابن حجر مکی نے اس کے جواب میں کہا کہ:
"لفظ احقاب" انتہا کا متقاضی نہیں بلکہ اہل عرب دوام کی تعبیر ایسی عبادات سے کرتے ہیں اور گناہ پر ہمیشہ عذاب دینے میں کوئی ظلم نہیں کیونکہ کافر پختہ ارادہ رکھتا ہے کہ جب تک زندہ رہے گا ہمیشہ کفر پر ہی رہے گا سو دائمی گناہ پر ہی دائمی عذاب ہوا تو یہ عذاب، گناہ کے مطابق ہی سزا ہوئی۔ انتہی۔
|