بیع وفا رہن ہے بیع نہیں
سوال:
بیع وفا ([1]) کا عقد جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
اس مسئلہ میں اختلاف ہے درمختار اور عزر وغیرہ میں اس کی صورت اس طرح مذکور ہے کہ کسی چیز کو کسی شخص کے ہاتھ مثلا ایک ہزار درہم کے بیچ دیا اس شرط پر کہ جب وہ اس چیز کو واپس کر دے گا بائع اس کی رقم واپس کر دے گا۔ شافعیہ اس کو’’رہن معاد‘‘کہتے ہیں۔ مصر میں’’ بیع امانت‘‘ اور شام میں ’’بیع اطاعت‘‘ کہتے ہیں اور یہ بیع بعض کے نزدیک رہن ہے، اور اس صورت میں اس کے زوائد اور منافع بحکم حدیث " له غنمه و عليه غرمة " یعنی اس کے لئے اس کا منافع اور اس کے ذمہ اس کا نقصان ہو گا۔
اور جواہر الفتاویٰ میں ہے یہ قول صحیح ہے۔ اور فتاوی خیرالدین رملی میں ہے کہ: وعليه الاكثر یعنی اکثر علماء کا یہی قول ہے اور بعض کے نزدیک یہ بیع ہے رہن نہیں۔ اور مشائخ متقدمین و متاخرین کی ایک جماعت نے لوگوں کا اس ضرورت کی خاطر اور ربا سے محفوظ رہنے کے لئے اس قول کو اختیار کیا ہے لیکن اگر اسی عقد میں شرط استردار لگائی جائے تو بیع فاسد ہو جائے گی کیونکہ حدیث میں ہے "نهي عن بيع و شرط" یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عقد بیع میں شرط لگائے جانے سے منع فرمایا ہے۔ اور شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ([2]) لکھا ہے کہ اگرچہ بعض فتاویٰ میں اسے جائز رکھا ہے، لیکن ہمارے نزدیک عدم جواز راجح ہے۔ اور حقیقت میں یہ عقد، عقد رہن ہے کہ جو اس شرط فاسد کے سبب فاسد ہو گئی ہے جو عقدِ بیع کے مخالف ہے۔
واللہ اعلم
|