اور یہی مذہب تمام اہل علم اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ، ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ، محلی شرح مؤطا سے معلوم ہوتا ہے۔ اور ہدایہ، فتح القدیر اور درمختار کا ذکر پہلے ہو چکا ہے کہ اقامت کے وقت مسجد میں سنت پڑھنا مکروہ ہے اور خارج از مسجد پڑھنا درست ہے بشرطیکہ فرض کی دونوں رکعت نہ چھوٹ جائیں، لیکن حدیث کے مضمون سے جماعت کھڑی ہونے کے وقت سنت کا مطلق نہ پڑھنا معلوم ہوتا ہے۔ خواہ مسجد میں ہو یا مسجد سے خارج۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فيه دليل علي انه لا يصلي بعد الاقامة نافلة وان كان يدرك الصلوة مع الامام ورد علي من قال، ان علم انه يدرك الركعة الاولي او الثانية يصلي النافلة ([1])
’’اس میں دلیل پائی جاتی ہے کہ اقامت کے بعد نفل نہ پڑھے جائیں، اگرچہ نماز امام کے ساتھ پائی جا سکتی ہو اور اسی سے اس پر رد کیا جائے گا، جو یہ کہے کہ اسے معلوم ہے کہ نفل پڑھنے کی صورت میں پہلی یا دوسری رکعت پا لے گا۔‘‘
جماعت کھڑی ہونے کی صورت میں سنتیں نہ پڑھنے میں حکمت:
اور جماعت کھڑی ہونے کے بعد سنت نہ پڑھے اس میں یہ حکمت پنہاں ہے کہ: فرض جماعت میں ابتداء ہی سے دل جمعی سے مل جائے اور تکبیر اولی اور تکمیل فرض کے ثواب کو حاصل کر لے اور اختلاف کی صورت ظاہر نہ ہو پس فرض کی حفاظت علی وجہ الکمال مقتدی کو ضرور کرنی چاہیے۔
جیسا کہ امام نووی رقمطراز ہیں:
ان الحكمة فيه ان يتفرغ للفريضة من اولها فيشرع فيها عقيب مشروع الامام، واذا اشتغل بنافلة فاته الاحرام و فاته بعض مكملات الفريضة، فالفريضة اولي بالمحافظة
|