ھنڈوی کا حکم
سوال:
قرآن کریم اور حدیث شریف کی رو سے ہنڈوی کا کیا حکم ہے؟
جواب:
اس مسئلہ میں صریح نص تو موجود نہیں اسی لئے اس میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے چنانچہ دلیل کے نہ ہونے کی صورت میں اجتہاد اور استنباط پر عمل کرنا لازم ہے۔
میں کہتا ہوں کہ: جب فقہاء کرام رحمہم اللہ نے اس مسئلہ میں بنظر غائر جائزہ لیا تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ انواع معاملات میں سے قرض کے تحت داخل ہے اور اس میں قرض خواہ کا نفع ہے کیونکہ اس سے مقصود کسی شخص کی معینہ رقم لے کر دوسرے شہر میں کسی خاص شخص کو پہنچا دینے سے رستے کے خوف سے امن ہی مطلوب ہے اور یہ نفع قرض پر حاصل ہوا جبکہ قرض پر نفع لینا ربا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث:
كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا فَهُوَ رِبًا ([1])
رواہ حارث بن اسامہ مرفوعا۔ یعنی جو قرض نفع کھینچ لائے وہ ربا ہے۔ اگرچہ یہ ضعیف ہے اور اس کے وہ شواہد بھی جو بیہقی کی کتاب المفرد اور بخاری کی تاریخ میں منقول ہیں وہ بھی ضعیف ہیں لیکن اہل علم کا اسے قبول کر لینے سے اس کو تقویت حاصل ہو گئی اور اہل علم نے بموجب اس حدیث کے ھنڈوی کی کراہت کا حکم لگایا ہے جس سے فقہاء کی اصطلاح میں سفتجہ (ھنڈی دینا) کہتے ہیں اور اس کی جمع سفاتج ہے۔ اسی طرح ھدایہ شرح وقایہ، مصفی اور انوار وغیرہ میں مذکور ہے۔ اور کراھت سے مراد کراہت تحریمی ہے، چنانچہ اطلاق کے وقت یہی سمجھا جاتا ہے اور یہ معاملہ اس ملک
|