Maktaba Wahhabi

331 - 386
میں تین طرح سے مروج ہے: 1۔ جس قدر مبلغ ہو اس کو اسی قدر بغیر کسی کمی و بیشی کے تحریر کیا جائے اس صورت میں کوئی ربا نہیں۔ 2۔ مبلغ کم وصول کریں لیکن ادائیگی زیادہ کریں۔ 3۔ زیادہ لے کر کم لکھیں اور دونوں صورتیں لینے اور دینے میں صریح ربا ہیں۔ اور اس سے بچنے کی یہ تدبیر ہے کہ اگر ہنڈوی سو 100 روپیہ کی کریں اور دس دوپیہ ھنڈوان (بنانے کا خرچ) آتا ہے تو چاہئے کہ مہاجن (سوہوکار، سوداگر) کو سو روپیہ سے دو روپیہ کم دے اور روپیہ کے پیسے خرید کر بارہ روپیہ مہاجن کے ہاتھ بیچ دے اس صورت میں اختلاف جنس کے باعث یہ معاملہ بلاشبہ درست ہو جاتا ہے۔ اس پر صحیحین میں حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر پر عامل مقرر فرمایا تو وہ شخص آپ کے پاس اچھی کھجوریں لایا، آپ نے فرمایا خیبر کی سب کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ اس نے کہا نہیں حضرت، خدا کی قسم ہم تو ان کا صاع، دوسری کھجوروں کے دو صاع دے کر لیا کرتے ہیں اور کبھی دو صاع، تین صاع دے کر لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح مت کرو یعنی ایک چیز کو اسی کے ہم جنس سے کمی و زیادتی سے خریدنا ربا ہے بلکہ ملی جلی کھجوروں کو ایک دفعہ داموں کے بدلے بیچ کر ان داموں سے اچھی کھجوریں خریدا کرو تاکہ ربا لازم نہ آئے اور موزونات (تولی جانے والی چیزوں) میں بھی اسی طرح فرمایا، یعنی تمر تو مکیلات میں سے ہے لیکن یہ حکم مکیلات ہی سے مخصوص نہیں بلکہ موزونات (جو ترازو سے وزن کی جاتی ہیں جیسے سونا چاندی وغیرہ) کا بھی یہی حکم ہے۔ اور اس شخص کا نام سواد بن غزیہ تھا۔ چنانچہ محلی نے دارقطنی سے نقل کیا اور خطیب نے مبھمات میں ذکر کیا جبکہ بعض نے کہا وہ مالک بن صعصعہ ہے۔ ([1]) اس سے معلوم ہوا کہ غیر جنس درمیان میں آنے سے کمی و بیشی حلال ہو جاتی
Flag Counter