کی یہ پکار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائی جاتی ہے، جو کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے وہ ثبوت مہیا کرے۔ حدیث میں سینکڑوں جگہ آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ ’’میں غیب نہیں جانتا‘‘ پھر ’’یا رسول اللہ‘‘ کہنا صریح شرک نہیں تو اور کیا ہے، جو اس کے جواز کا مدعی ہے اسے لازم ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت کرے ورنہ بے دھڑک دین میں کوئی بات نہ کرے اور جاہلوں کو گمراہ نہ کرے۔ نعوذ بالله منها
’’یا رسول اللہ‘‘ کہنے والوں کے دلائل اور ان کا رد:
اب ان کٹ ملاؤں کے وہ دلائل ذکر کرتا ہوں جن سے وہ ’’یا رسول اللہ‘‘ کہنا درست بتاتے ہیں پھر اس کا شافی جواب بیان کروں گا۔
پہلی دلیل:
یہ کہ قرآن میں ندا ہے۔
جواب:
وہ تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو پکارتا ہے۔ اور اس پکار کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بواسطہ جبرائیل علیہ السلام کے ہوتی تھی کیونکہ قرآن حضرت جبرائیل علیہ السلام لے کر آتے تھے اور مسلمان جو پڑھتے ہیں وہ اللہ کا کلام نقل کرتے ہیں، خود مسلمان ندا نہیں کرتے کہ یہ استدلال ممکن ہو، جیسے کوئی شخص کسی دوسرے کا خط پڑھے تو جو اس خط کا مضمون ہو گا وہ پڑھنے والے کا نہیں بلکہ خط لکھنے والے کا ہو گا پھر اس سے دلیل پکڑنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔
دوسری دلیل:
ہم التحیات میں پڑھتے ہیں۔ السلام عليك ايها النبي ۔ یہ ندا نہیں تو اور کیا ہے
جواب:
اس کا جواب بھی وہی ہے کہ یہ بھی کلام، اللہ تعالیٰ کا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج
|