Maktaba Wahhabi

185 - 386
میں خطاب کر کے فرمایا تھا۔ مسلمان اسی کی نقل کرتے ہیں، چنانچہ حدیث معراج میں مفصلا مذکور ہے۔ غرضیکہ کہیں حدیث یا فقہ میں موجود ہو کہ یا رسول اللہ کہنا جائز ہے تو ایسا کہنے والا کتب معتبرہ سے دلیل لائے یا پھر عقیدہ فاسدہ سے رُک جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ٭ قد نمقہ العبد المساکین محمد یٰسین الرحیم آبادی عفی عنہ ٭ الجواب صحیح۔ فقیر محمد حسین ٭ الجواب صحیح۔ ابو القاسم محمد عبدالرحمٰن تغمدہ اللہ تعالیٰ بالغفران ٭ صورتِ مسئولہ میں معلوم کرنا چاہیے کہ ہر فرد بشر پر یہ لازم ہے کہ تمام افعال و اقوال میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی اتباع کرے اور یہ بھی واضح ہوا کہ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ان جملہ امور میں جو آپ نے کئے ہیں لازم ہے ویسے ہی ان میں بھی لازم ہے جو افعال و اقوال آپ نے نہ تو کئے اور نہ فرمائے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بطور درود و وظیفہ کے کسی کو سکھلائے ہوں، کما افاد الشیخ؍عبدالحق الحنفی المحدث الدہلوی۔ اور یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ جس قدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی کسی شخص کو نہ ہوئی ہو گی، کیونکہ حضرات صحابہ فرماتے ہیں کہ: لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ. كذا في المشكاة وهذا حديث حسن صحيح. (ترمذی احمد شاکر 5؍40، مصابیح السنۃ 3؍286) ’’ کوئی شخص بھی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر محبوب نہ تھا، اور جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تھے کھڑے نہ ہوتے تھے، کیونکہ وہ اس میں آپ کی کراہت کو جانتے تھے۔‘‘ اور یا رسول اللہ کہنا نہ صحابہ نہ تابعین نہ تبع تابعین اور نہ ہی چاروں اماموں سے کہنا ثابت ہے اور جو کام قرونِ ثلاثہ میں مروج نہ تھا وہ بدعت ہے اور اس کام کا
Flag Counter