ذنبها وان بقى اكثر الاذن والذنب جاز و بجوز ان يضحى بالجماء " (ھدایہ 4؍431)
’’اندھا، کانا، لنگڑا جو قربان گاہ کی طرف چل کر نہ جا سکتا ہو، نہ ہی لاغر، کان کٹے اور دم کٹے کی قربانی کی جائے گی جس کے کان اور دم کا زیادہ حصہ کٹا ہوا ہو اور اگر دونوں کا زیادہ حصہ باقی ہو تو جائز ہو گا، نیز بے سینگ کی قربانی بھی جائز ہے۔‘‘
قربانی کا جانور خریدنے کے بعد عیب کا پیدا ہو جانے کا حکم:
اور یہ عیوب معتبر ہیں لیکن اگر بہ نیت قربانی جانور تمام عیوب سے سالم خریدا تھا اور بعد میں کوئی عیب پیدا ہو گیا تو وہ (بطور قربانی) جائز ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں:
" اشْتَرَيْتُ كَبْشًا أُضَحِّي بِهِ ، فَعَدَا الذِّئْبُ، فَأَخَذَ الأَلْيَةَ ، قال سألت النبى صلى الله عليه وسلم فقال ضح به (رواه احمد) وهو دليل على ان العيب الحادث بعد التعين لا يضر (المنتقى) (نیل الاوطار 5؍125-126) فى اسناد جابر جعفى وهو ضعيف جدا۔
’’ کہ میں نے ایک دنبہ بغرض قربانی خریدا، اس پر ایک بھیڑیا جھپٹا اور اس کی چلی لے گیا۔ سو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کی قربانی کر لو۔ پس یہ دلیل ہے کہ تعین کے بعد عیب کا پیدا ہو جانا مضر نہیں ہے۔‘‘ (الفتح الربانی 13؍80)
احناف کے نزدیک غنی کو دوسری بدل لینی چاہئے اور غریب کے لئے وہی درست و کافی ہے، چنانچہ مذکور ہے:
"وهذا الذى ذكرنا اذا كانت هذه العيوب قائمة وقت
|