Maktaba Wahhabi

181 - 386
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنے کی شرعی حیثیت سوال: علمائے دین ارشاد فرمائیں کہ ’’یا رسول اللہ‘‘ کہنا جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ بعض علماء اس کے جواز میں بڑے بڑے دلائل پیش کرتے ہیں؟ بینوا توجروا۔ جواب: ارباب (ماہرین) علم پر مخفی نہیں کہ کسی کو ندا کرنا یعنی پکارنا اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ وہ شخص بالذات یا بالواسطہ اس پکار کو سنے۔ بالذات یہ کہ اپنے کان سے سنے یعنی وہاں پر حاضر ہو اور بالواسطہ یہ کہ خط میں لکھے اور وہ خط اس شخص کو پہنچے یا کسی کی معرفت سنے، جیسا کہ عرف میں ہے کہ خطوط میں مخاطب کو ندا کرتے ہیں اور جو شخص نہ حاضر ہو نہ بواسطہ خط اور نہ کسی معرفت اس کو خبر دی جائے۔ ایسے شخص کو اگر کوئی پکارے تو ماسوا احمق کے اسے کیا کہا جا سکتا ہے۔ جیسے کوئی شخص دہلی میں رہ کر اس شخص کو پکارے جو لکھنؤ میں ہے کہ "اے فلاں" تو لوگ اسے سوائے دیوانے کے اور کیا کہیں گے۔ سو ندا کرنا یعنی ’’یا فلاں‘‘ کہنے کے لئے ضروری ہے کہ یا وہ شخص خود اپنے کانوں سے سنتا ہو یا بذریعہ خط، یا کسی شخص کی معرفت اسے اس پکار کی خبر ہو ورنہ ندا صحیح نہیں ہے۔ كما لا يخفي علم غیب صرف اللہ کی صفت ہے: تو ’’یا رسول اللہ‘‘ کہنا جب ہی درست ہو سکتا ہے کہ یہ امر ثابت ہو کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اور ان کو غیب کی خبر ہے یا کوئی شخص ان کو اس پکار کی خبر دیتا ہے اور ان دونوں باتوں میں سے ایک بات بھی ثابت نہیں ہے، بلکہ بالکل
Flag Counter