الشراء، ولو اشتراها سليمة ثم تعيب بعيب مانع ان كان غنيا عليه غيره وان كان فقيرا تجزيه هذه، لان الوجوب على الغنى بالشرع ابتداء لا بالشراء فلم تتعين به و على الفقير بشرائه بنية الاضحية فتعينت" (ھدایہ 4؍432)
’’ اور جس کا ہم نے ذکر کیا ہے کہ عیوب جبکہ وقت خرید موجود ہوں اور اگر اس نے سالم خریدا تھا پھر اس میں قربانی سے مانع کوئی عیب پیدا ہو جائے، سو اگر مالدار ہے تو اس کے ذمہ دوسری ہے اور اگر وہ تنگدست ہے تو اس کے لئے یہی جائز ہے، اس لئے کہ تونگر کے ذمہ شرع میں ابتدا سے واجب تھی نہ کہ خریدنے کے بعد اور تنگدست پر صرف یہ جانور قربانی کی نیت سے خریدنے کی بنا پر متعین ہوا تھا۔‘‘
خصی جانور کا حکم:
خصی جانور کی قربانی جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی جانور کی قربانی کی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں کہ:
" أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ سَمِينَيْنِ عَظِيمَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ مُوْجَيَيْنِ ([1]) " (رواہ احمد، منتقی الاخبار 2؍305) (فتح الباری کتاب الاضاحی 5564 مصابیح السنۃ 1؍480، مسلم 4؍1966)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بڑے، موٹے، خوبصورت سینگوں والے خصی مینڈھوں کی قربانی کی۔‘‘
اس مضمون سے متعلق اور بھی بہت سی احادیث منقول ہیں، مگر بخوف طوالت
|